* سلگتی چاہ کی بھٹی میں جل رہا تھا بد *
سلگتی چاہ کی بھٹی میں جل رہا تھا بدن
ترے خیال کے پیکر میں ڈھل رہا تھا بدن
چراغ بن کے لہو بوند بوند جلتا رہا
خود اپنی آنچ میں شب بھر پگھل رہا تھا بدن
برس رہی تھی جو مجھ پر تمہارے ہجر کی آگ
اکیلے پن کی اذیّت سے جل رہا تھا بدن
تمہارے پیار کی خوشبو نے مست کر ڈالا
تمہاری بانہوں میں آکر مچل رہا تھا بدن
میں خود کو تاج محل سا حسیں سمجھنے لگی
تمہارے حسنِ نظر سے بدل رہا تھا بدن
تڑپ رہی تھی میں نغمہؔ کسی کی یادوں میں
غمِ فراق کے شعلوں میں جل رہا تھا بدن
******************** |