* آرزئوں ، خواہشوں کا گوشوارہ کھوگی *
آرزئوں ، خواہشوں کا گوشوارہ کھوگیا
تم گئے پردیس کیا ، سب کچھ ہمارا کھوگیا
تھا رواں میرا سفینہ اور ساحل تھا قریب
اتنے میں طوفان آیا اور کنارہ کھوگیا
شہر کو بے چہرگی کا روگ کچھ ایسا لگا
وقت کے آئینے میں چہرہ ہمارا کھوگیا
جل گیا سورج خود اپنی چلچلاتی دھوپ میں
شام کی آغوش میں اُس کا شرارہ کھوگیا
دھند ایسی چھائی میری حسرتوں کی جھیل پر
دھیرے دھیرے آرزوئوں کا شکارا کھوگیا
مشکلوں سے میں نے پایا تھا اُسے کھونے کے بعد
پھر ہوا یوں مجھ سے مل کر وہ دوبارہ کھوگیا
زندگی کی راہ میں تھی اس قدر چہروں کی بھیڑ
اُس کا چہرہ ہوکے مجھ پر آشکارا کھوگیا
نغمہؔ وہ کیا کیا نظارے تھے نظر کے سامنے
ماں نے آنکھیں موند لیں تو ہر نظارہ کھوگیا
************************** |