* چاندی کی ہے دیواریں سونے کے دریچے *
چاندی کی ہے دیواریں سونے کے دریچے ہیں
ہر گھر کی مگر زینت ہم خاک کے پتلے ہیں
اے دوست مرے مجھ کو جینے کی دعائیں دے
آنکھوں میں ابھی میری کچھ خواب سنہرے ہیں
کس بات پہ جی اٹھوں کس بات پہ مرجائوں
تقدیر کے ہونٹوں پر الفاظ کچھ ایسے ہیں
جیسا بھی ہو اپنا گھر، دولت وہی اپنی ہے
باہر کے نظارے تو میرے ہیں نہ تیرے ہیں
ماں باپ کی خدمت سے ہوتا ہے خدا راضی
ماں باپ ہی دنیا میں جنت کے وسیلے ہیں
کیا جانے کہاں ابھریں کیا جانے کہاں ڈوبیں
غربت کے تلاطم میں مٹی کے سفینے ہیں
ملتا ہے وہ جب نغمہؔ ہوجاتی ہیں تر آنکھیں
اُس شخص کے چہرے میں ہجرت کے فسانے ہیں
******************* |