* آنکھوں میں گویا نور کے پیکر ٹھہر گ *
آنکھوں میں گویا نور کے پیکر ٹھہر گئے
تم آگئے تو بزم کے منظر ٹھہر گئے
میں فرض کے لئے چلی شعلوں پہ عمر بھر
راہوں میں کیسے کیسے قلندر ٹھہر گئے
اللہ کا کرم تھا اشارے عصا کے تھے
موسیٰؑ نے کہہ دیا تو سمندر ٹھہر گئے
مجنوں کے جرمِ عشق میں لیلیٰ بھی تھی شریک
کیوں دشمنوں کے ہاتھ میں پتھر ٹھہر گئے
اظہارِ عشق کیسے کروں سوچتی تھی میں
آنگن میں میرے آکے کبوتر ٹھہر گئے
بچوں کے دل میں میری کشش جانے کیسی تھی
راہوں میں مجھ کو دیکھ کے اکثر ٹھہر گئے
جو اہلِ کارواں تھے وہ دشمن تھے نغمہؔ نور
میرے عزیز جو تھے جہاں پر ، ٹھہر گئے
************************ |