* مری غیرت کسی دہلیز تک جانے نہیں دی *
مری غیرت کسی دہلیز تک جانے نہیں دیتی
ہزاروں غم ہوں یہ دنیا کو دکھلانے نہیں دیتی
بہت چھوٹی ہے چادر سر چھُپے تو پیر کھُلتے ہیں
مگر عزت کو میں قدموں تلے آنے نہیں دیتی
خودی کی پاسبانی ہے انا کی مہربانی ہے
کسی کے سامنے یہ ہاتھ پھیلانے نہیں دیتی
جہاں والے کبھی دل سے مجھے ہنسنے نہیں دیتے
انا میری مجھے آنسو بھی چھلکانے نہیں دیتی
برے حالات میں بھی پختگی ایمان کی میرے
جو چاہوں زہر بھی کھانا تو یہ کھانے نہیں دیتی
کروں میں کیسے اپنے آپ کو ہجرت پہ آمادہ
تری چاہت مجھے اس شہر سے جانے نہیں دیتی
ہمیشہ زندگی کی تنگ دامانی مجھے نغمہؔ
بہاریں لاکھ آئیں دل کو بہلانے نہیں دیتی
********************* |