* نہ ہوں گے اتنے قطرے آب کے ساون کے با *
نہ ہوں گے اتنے قطرے آب کے ساون کے بادل میں
چھپاکر جتنے دریا رکھ لئے ہیں میں نے کاجل میں
تمہارے نام سے جس روز میں نے مانگ بھرلی تھی
اسی دن سے بسا ہے دل مرا یادوں کے صندل میں
بچھا دیتی ہے کانٹے کیوں مرے قدموں تلے دنیا
میں جب بھی مور بن کے ناچتی ہوں دل کے جنگل میں
محبت سے ملا تحفہ بہت انمول ہوتا ہے
مجھے لگتا نہیں کچھ فرق سونے اور پیتل میں
کسی صورت میسر ہو نہ پایا آج تک نغمہؔ
وہی آرام جو حاصل تھا کل ممتا کے آنچل میں
************************* |