* پیکر جو میری زیست کا رنگین کرگئے *
پیکر جو میری زیست کا رنگین کرگئے
خوابوں کے وہ حسین پرندے کدھر گئے
پلکوں پہ جھلملائے تھے کچھ تارے یاد کے
آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کے پھر وہ بکھر گئے
غیروں کا وہ محل تھا جہاں جاگتے رہے
کچی زمیں پہ سوگئے جب اپنے گھر گئے
اتنی سی تھی خطا کہ خموشی تھی میرے نام
الزام جتنے بھی تھے مرے سر وہ دھر گئے
اونچے مقام والوں سے ہم رشتے جوڑ کر
احساسِ کمتری کے کھنڈر میں اُتر گئے
لپٹے رہے وہ ماں کے کلیجے سے رات بھر
بچے اندھیری رات میں بجلی سے ڈر گئے
نغمہؔ وہ سایہ بن کے رہا جب ہمارے ساتھ
ہم بھی غموں کی دھوپ سے ہنس کر گزر گئے
************************ |