* چاند شعلے اگل رہا ہے کیوں *
چاند شعلے اگل رہا ہے کیوں
گھر چراغوں سے جل رہا ہے کیوں
اپنی پوشاک کی طرح انساں
لمحہ لمحہ بدل رہا ہے کیوں
میں نے تو کچھ ابھی کہا بھی نہیں
ہائے پتھر پگھل رہا ہے کیوں
آدمی پی کے آدمی کا لہو
آدمیت نگل رہا ہے کیوں
دام میں کس کے آگیا آخر
میرا محسن بدل رہا ہے کیوں
نام تک لب پہ اب نہیں جس کا
اشک بن کر مچل رہا ہے کیوں
جاگتا جب نہیں مقدر پھر
روز پہلو بدل رہا ہے کیوں
پھول بھی چبھ رہے ہیں کیوں نغمہؔ
آج دریا بھی جل رہا ہے کیوں
***************** |