* مشکل ہے رکھنا اب دلِ مضطر سنبھال ک *
مشکل ہے رکھنا اب دلِ مضطر سنبھال کے
لے جا تو میرے خط کو کبوتر سنبھال کے
میں نے تو اپنا خون تمہیں کردیا معاف
رکھا ہے تم نے آج بھی خنجر سنبھال کے
تحفے میں جو دیا تھا مجھے آپ نے کبھی
رکھا ہے آج تک وہ گلِ تر سنبھال کے
خوشبو ترے بدن کی ہوائوں میں گم نہ ہو
رکھتی ہوں روز میں ترا بستر سنبھال کے
قدموں پہ دشمنوں کے نہ دستار گر پڑے
گردن جھکایئے تو ذرا سر سنبھال کے
وہ جانتا تھا بچوں کے تیور بدلتے ہیں
رکھا تھا اُس نے گائوں میں اک گھر سنبھال کے
اکثر وہی زمین سرکتی ہے نغمہؔ نور
رکھتے ہیں لوگ قدموں کو جس پر سنبھال کے
*************************** |