* حقیقت سے چراکر آنکھ جینے کی ادا کی *
حقیقت سے چراکر آنکھ جینے کی ادا کیا ہے
دکھاوے کی ستائش میں تمہی بولو مزا کیا ہے
میں قطرہ ہوں،مگر پہچان رکھتی ہوں زمانے میں
اگر دریا سے مل جائوں تو پھر میری اناکیا ہے
تمہی میرے مسیحا ہو ، تمہیں ہے سب خبر ہمدم
کہ میرے دردِ پنہاں کی اگر ہے تو دوا کیا ہے
بلا تے ہیںوہ محفل میں مگر کرتے نہیں باتیں
اگر اِس کو ادا کہئے تو پھر کہئے جفا کیا ہے
محبت کرکے بھی اب تک نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
تمہاری آرزو کیا ہے ، ہمارا مدعا کیا ہے
وہ اک پرچھائیں ہے نغمہؔ پکڑ میں جو نہیں آتی
فسانہ ہی فسانہ ہے ، حقیقت میں وفا کیا ہے
************************* |