* اک جھٹکے میں وقت کی موجیں سب رشتوں *
اک جھٹکے میں وقت کی موجیں سب رشتوں کو نگل گئیں
ماں کی آنکھیں بند ہوئیں تو سب کی آنکھیں بدل گئیں
آخر میرے افسانے میں ایسا کیا ہے میرے حبیب
آج تری پتھر سی آنکھیں جس کو پڑھ کر پگھل گئیں
میں تو موجوں کے پیروں میں بیڑی ڈال کے آئی ہوں
میری کشتی دیکھ کے کیسی کیسی ندیاں سنبھل گئیں
کچھ پودے ایسے بھی تھے جو دھوپ کے ہاتھوں جھلس گئے
پھر قدرت نے ایسے سینچا سو سو شاخیں نکل گئیں
تو اپنی قسمت سے آگے کیسے چلتا ذرا بتا؟
تیری سوچوں کی رفتاریں خود ہی تجھ کو کچل گئیں
پربت کے سینے سے بھی جب دکھ کے چشمے پھوٹ پڑے
نغمہؔ کی ہستی ہی کیا اُس کی بھی آنکھیں اُبل گئیں
************************** |