* اک خواب حقیقت سا ، پلکوں پہ اتر جائ *
اک خواب حقیقت سا ، پلکوں پہ اتر جائے
تم جس پہ نظر ڈالو وہ چہرہ سنور جائے
دل پر لکھی تحریریں دھندلی ہوئی جاتی ہیں
تم ایسے پڑھو اُن کو ہر لفظ ابھر جائے
جس گھر کی پناہوں میں بچپن مرا گزرا ہے
اے کاش! مرا پیکر پھر اُس میں اُتر جائے
پتھر تو نہیں ہوں میں اک خاک کا پُتلا ہوں
ممکن ہے مرا یہ دل طوفان سے ڈر جائے
اب تو ہی سہارا دے اے میرے خدا مجھ کو
ڈر ہے نہ مری ہستی کچھ اور بکھر جائے
باہر کے عدو کچھ ہیں کچھ گھر میں بھی ہیں دشمن
اِس حال میں اب نغمہؔ جائے تو کدھر جائے
******************* |