* اپنے جذبات و خیالات کا پیکر کہہ لو *
اپنے جذبات و خیالات کا پیکر کہہ لو
آئینہ کہہ لو مجھے یا کہ سخن ور کہہ لو
میری منزل کی طرف لوٹ کے آنا ہے تمہیں
اپنی راہوں کا مجھے شوق سے پتھر کہہ لو
تم مرے دل کو کبھی تاج محل کہتے تھے
آج تم اِس میں رہو اپنا اِسے گھر کہہ لو
وقتِ مشکل میں تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے
تم بھی دنیا کی طرح مجھ کو ستم گر کہہ لو
آسماں اوڑھ کے سوجائو تھکن کہتی ہے
تم مسافر ہو تو پتھر کو ہی بستر کہہ لو
آزمائش کی نہیں شرط تو اے جانِ وفا
خار کو پھول کہو پھول کو پتھر کہہ لو
ذکر جب نغمہؔ کی آنکھوں کا تمہیں کرنا ہے
غم کے صحرا میں محبت کا سمندر کہہ لو
****************************** |