* پائوں کے نیچے آگ بچھی ہو، جھونکا ہ *
غزل
رمز عظیم آبادی
پائوں کے نیچے آگ بچھی ہو، جھونکا ہوا کا وار کرے
کون ہے جو ایسے رستے میں جینے کا اقرار کرے
جو بھی سمجھ لے وقت کی سازش لوگوں کو ہشیار کرے
روزن روزن آنکھیں رکھ دے بات پسِ دیوار کرے
قطرہ قطرہ رات گھلی ہے نیند سے ترسی آنکھوں میں
کوئی اٹھے اور گلیوں گلیوں خوابوں کا بیو پار کرے
چوںکے ہوئے احساس غزل سے جان چھڑانی مشکل ہے
جیسے کوئی ضدی بچہ سونے سے انکار کرے
کچھ نعرے کچھ درس نفرت شہروں کی دیواروں پر
سناّٹا تحریک چلائے ، ہنگامہ بازار کرے
رمزؔ بغاوت کے گیتوں کی جو آواز ابھرتی ہے
لفظوں میں شعلوں کی لپک ہے لحظہ بھی جھنکار کرے
٭٭٭
|