* یہ انتہا ہے مرے دُکھ بھرے فسانے کی *
غزل
رمز عظیم آبادی
یہ انتہا ہے مرے دُکھ بھرے فسانے کی
بہت دنوں سے تمنّا ہے مسکرانے کی
وہ دن گئے کہ مسرت میں لوگ ہنستے تھے
اب آنسوئوں میں ضرورت ہے مسکرانے کی
سکوتِ شب میں یہ اکثر ہوا مجھے افسوس
کہ جیسے رک سی گئیں گردشیں زمانے کی
غبارِ وقت ہے نقشِ قدم یہ ماضی کے
دلیل ہے یہ نئے کارواں کے آنے کی
وہ خوش تھے ذکرِ وفا کرکے بے حجابانہ
مگر حیاسے نظر جھک گئی زمانے کی
غریبِ شہر گئے جب بھی میکدہ کی طرف
تو اُن پہ اُٹھنے لگیں انگلیاں زمانے کی
بَری ہے رمز تکلیف سے زندگی اپنی
فریب دے نہ سکی دلکشی زمانے کی
٭٭٭٭ |