* میں پیتا ہی رہا ساقی تمنّا دل سے کب *
غزل
رمز عظیم آبادی
میں پیتا ہی رہا ساقی تمنّا دل سے کب نکلی
صراحی سے جو نکلی مئے تو وہ بھی تشنہ لب نکلی
ہوئی آنکھوں کے صدقے اور لب لعلیں کو چوم آئی
نظر معصوم تھی رخ تک جو پہنچی بے ادب نکلی
جناب شیخ تم کیا ہو فرشتے بھی بہک جائیں
سنور کر جس گھڑی بوتل سے یہ بنت عنب نکلی
حسینوں کی پشیمانی کبھی دیکھی نہ جائے گی
تیری یہ بے رُخی ہی میرے جینے کا سبب نکلی
برہمن کی زباں پر ہے الف لیلہ کا افسانہ
بتوں کے دل میں بھی یارب تمنائے عرب نکلی
خدا رکھّے بہک کر میکدے کی سمت آپہنچی
قیامت چوم کر تیری حسیں آنکھوں کو جب نکلی
نہ کرنا وصل کی خواہش نہ رسوائے جہاں ہونا
محبت رمز کی شرمندۂ رسم طلب نکلی
٭٭٭
|