* مدت گذری مٹ گئی ہستی زنداں میں دل گ *
غزل
رمز عظیم آبادی
مدت گذری مٹ گئی ہستی زنداں میں دل گیروں کی
رات ڈھلے اب بھی آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی
عشق کا سینا چھلنی ہوگا کڑکے گی ابرو کی کماں
سُنتے ہیں اب بارش ہوگی شہروں شہروں تیروں کی
آگ، دھواں اور خون کے قصے کہتی ہے رنگوں کی زباں
شہرِ ستم میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تصویروں کی
یاں بھی جلنا واں بھی جلنا ہم جیسوں کو چین کہاں
جنت بھی دنیا والوں کی دنیا بھی ہے امیروں کی
پتھر جیسے دلٹ والے بھی خون کے آنسو روتے ہیں
فرصت ہو تو بام سے تو بھی حالت دیکھ فقیروں کی
رمزؔ بڑا فنکار ہے لیکن اس کے فن کو سمجھے کون؟
کانچ کے ٹکڑے ایسے چمکے قیمت گھٹ گئی ہیروں کی
٭٭٭
|