* طالب ِ دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں *
طالب ِ دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں
دل میں ہے ورنہ وہ بجلی جو سرِ طور نہیں
دل سے نزدیک ہیں آنکھوں سے بھی کچھ دور نہیں
مگر اس پہ بھی ملاقات انہیں منظور نہیں
ہم کو پروانہ و بلبل کی رقابت سے غرض
گل میں وہ رنگ نہیں، شمع میں وہ نور نہیں
خلوت دل نہ سہی، کوچہ شہرگ ہی سہی
پاس رہ کر نہ سہی آپ سے کچھ دور نہیں
ذوق پابند وفا کیوں رہے محروم جفا
عشق مجبور سہی حسن تو مجبور نہیں
تابشِ حسن نے جب ڈال دئیے ہوں پردے
ممکن آنکھوں سے علاج دل رنجور نہیں
لائو میخانے ہی میں کاٹ نہ دیں اتنی رات
مسجدیں ہو گئیں معمور، یہ معمور نہیں
چھیڑ دے ساز انا الحق جو دوبارہ سرِ دار
بزم رنداں میں اب ایسا کوئی منصور نہیں
کبھی، کیسے ہو صفی، پوچھ تو لیتا کوئی
دل وہی کامگر اس شہر میں دستور نہیں
٭٭٭
|