* دردِ آغاز محبت کا اب انجام نہیں *
دردِ آغاز محبت کا اب انجام نہیں
زندگی کیا ہے، اگر موت کا پیغام نہیں
کیجئے غور تو ہر لذت دنیا ہے فریب
کون دانہ ہے یہاں پر جو تہِ دام نہیں
ہے تنزل کہ زمانے ترقی کی ہے
کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں
کون آزاد نہیں حلقہ بگوشوں میں ترے
نقش ، کس دل کے نگینے پہ ترا نام نہیں
نارسیدہ ہے، ترا میوہ جنت ، زاہد
پختہ مغزوں کو تلاش ثمر خام نہیں
یہی جنت ہے جو حاصل ہو سکونِ خاطر
اور دوزخ یہی دنیا اگر آرام نہیں
شعر گوئی کے لئے بس وہی موزوں ہے صفی
جس کو جز فکر سخن اور کوئی کام نہیں
٭٭٭
|