* تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی *
تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
چھُری تھی میرے لئے جو شکن تھی بستر کی
ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا
اگر ہو اسے بھی زنجیر ہل گئی درکی
اسی طرف ترے قرباں، نگاہ شرم آلود
مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی
سجائی حضرت ِ واعظ نے کس تکلف سے
متاعِ زہد و ورع سیڑھیوں پہ منبرکی
عبور بحرِ حقیقت سے جب نہیں ممکن
کنارے بیٹھ کے لہریں گنوں سمندر کی
سُنے گا کون ، سنی جائے گی صفی کس سے
تمہاری رام کہانی یہ زندگی بھر کی
************ |