* مگر میانہ روی آنسوئوں کے بس میں نہ *
مگر میانہ روی آنسوئوں کے بس میں نہ تھی
یہ کائنات محبت کی دسترس میں نہ تھی
انا کی آگ میں دوسرد مہر جلتے تھے
کسی امید کی لو شعلہ نفس میں نہ تھی
دلوں میں پیچ عجب تھے کہ خواہش تجدید
مِرے لہو میں تری چشم خواب میں نہ تھی
ہم اجنبی کی طرح ایک دوسرے میں جئے
رہِ فرار کوئی خوف کے قفس میں نہ تھی
ہمیں ملال رہے گا کہ ابتداء کی للک
تعلقات کے اُس آخری برس میں نہ تھی
************************ |