* کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے *
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
بڑے شوق سے سُن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے
مری نائو اس غم کے دریا میں ثاقب
کنارے پہ آہی لگی بہتے بہتے
٭٭٭
|