* زعم نہ کیجئیو بزم شمع رو بزم کے سوز *
زعم نہ کیجئیو بزم شمع رو بزم کے سوز و ساز پر
رکھیو نظر بجائے ناز خاطر پیر ناز پر
زیب نہیں ہے شیخ یہ میکش پاکباز پر
تہمتیں سو لگائے گا داغ جبیں نیاز پر
کہتا ہوں ہر حسیں سے میں نیت عشق ہے مری
آئے گا میرا دل مگر شاہد دل نواز پر
فرق حیات و مرگ کا مرغ چمن کے دل سے پوچھ
دیتا ہے فوق دام کو چنگل شاہباز پر
خوابِ لحد ہے پر سکوں، عہد حیات پر الم
موت نہ کیوں ہو طعنہ زن، زندگی دراز پر
سنگِ درِ حبیب پر ہوتا ہوں سجدہ ریز میں
خلقِ خدا ہے معترض مجھ پہ مری نماز پر
منعم بے بصر یوں نہیں دیکھئے تا کجا رہے
محوِ نشاط و خوش دلی نغمہ تار ساز پر
فخر ِ عمل نہ چاہئے ، سعی عمل ضرور ہے
آنکھ رہے لگی ہوئی ، رحمت کار ساز پر
در پہ بتوں کے دی صدا سائل بے نوا نے یہ
فضلِ خدا رہے مدام حالِ گدا نواز پر
٭٭٭
|