* ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا *
غزل
٭………شمیم فاروقی
ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا
جیسے کہ وہ کبھی کا مِرا آشیانہ تھا
سارے بدن پہ آگ کی لپٹیں سوار تھیں
دریا میں کودنے کے سوا راستہ نہ تھا
اک دوسرے سے دور رہے ہم تمام عمر
ویسے ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ تھا
خوابوں کے پر جلے ہوئے بکھرے تھے چار سو
اخبار کہہ رہا ہے کوئی گھر جلا نہ تھا
ہم اپنے غم کدے سے نکلتے تو کس طرح
تالے پڑے ہوئے تھے کوئی در کھلا نہ تھا
کتنا عظیم شخص ہے ہر غم کے باوجود
یوں ہنس رہا ہے جیسے کبھی کچھ ہوا نہ تھا
وہ دن بھی یاد ہے کہ اسی شہر میں شمیم
میں کھو گیا تھا اور کوئی ڈھونڈتا نہ تھا
*** |