* جینے کا سماں ہے خواب جیسا *
جینے کا سماں ہے خواب جیسا
دریا ہے یہاں سراب جیسا
ہنگامہ وہ شہر میں نہیں ہے
اس دل میں ہے اضطراب جیسا
مدت سے جو مجھ میں جل رہا ہے
چہرہ ہے وہ آفتاب جیسا
ہے اُ س کے نقاب کا وہی رنگ
ہے رنگ ِ ہنر نقاب جیسا
کانٹے کی طرح چُبھا ہے دل میں
اک شخص کہ ہے گلاب جیسا
اتنا تو بُرا نہ تھا میں شاعر
دنیا نے کیا خراب جیسا
******************** |