* اپنا درد سمجھنے والے شہر کے اندر ک *
اپنا درد سمجھنے والے شہر کے اندر کتنے ہیں
ویرانی خود بول رہی ہے بستی میں گھر کتنے ہیں
جتنی تابِ زخم ہنر ہے اس سے زیادہ دادِ ہنر
کتنے پھل ہیں ایک شجر میں، ہاتھ میں پتھر کتنے ہیں
یہ ہنستے ہونٹوں کے شگوفے، یہ کھلتے چہروں کے گلاب
آنکھیں کھولے دیکھ رہا ہوں، خواب کے منظر کتنے ہیں
ہر معیارِ قامت فن کا ایک تناسب ہوتا ہے
مجھ سے بڑے تو سب ہیں لیکن میرے برابر کتنے ہیں
صبح بھی دستک دے کر پلٹے شام بھی الٹے پائوں پھرے
اپنے گھر میں رہ کر شاعر ہم سے بے گھر کتنے ہیں
***************************** |