* جو ترک مے پہ مصر ہیں وہ کاش سو چ سکیں *
جو ترک مے پہ مصر ہیں وہ کاش سو چ سکیں
کہ تلخ تر کو نہ کرنا پڑے گوارا پھر
زمیں کی پیاس تو کیا بجھتی موج دریا سے
لہو کی نہر کا کاٹا گیا کنارا پھر
سلگتے لمحے حرارت کی آخری منزل
منگائو برف کی سل چڑھ رہا ہے پارا پھر
بدن کے زخموں سے ہے سخت ترا جراحت ذہن
جرید د شیشوں کا مرہم کوئی شمار ا پھر
******************** |