* بھیگتے ایک ساتھ بارش میں *
غزل
بھیگتے ایک ساتھ بارش میں
رہ گئے تشنہ ہم تو خواہش میں
ایک عالم میں ہوگئے رسوا
بے محل آپ کی ستائش میں
سادگی کے ہنر کو بھول گئے
کھو گئے لوگ سب نمائش میں
ہر طرف گونجتے ہیں سناٹے
کون رہتا ہے اس رہائش میں
کتنی عذرائیں زخم خوردہ ہیں
کتنے وامق ہیں آزمائش میں
****** |