donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Halim Sabir
Poet/Writer
--: Biography of Halim Sabir :--

 Halim Sabir 

 

شعر گوئی کا شوق مجھے بچپن ہی سے تھا، جب میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا الٹے سیدھے اشعار موزوں کرلیا کرتا تھا۔ سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ذوقِ شعر گوئی میرے اندر اور بھی ابھر آیا۔ ابتدائی دور میں میںصرف نظمیںکہا کرتا تھا، چند نظمیں غیر معروف رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ ۱۹۶۸ء کے آس پاس میں نے پہلا مشاعرہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں اپنے طرز کے منفرد شاعر جناب وکیل اختر کی صدارت میں پڑھا جس کی نقابت معروف شاعر جناب شہود عالم آفاقی مرحوم کررہے تھے۔ انہوں نے پہلی بار بحیثیت شاعر مجھے سامعین سے متعارف کرایا۔ اس مشاعرے کا اہتمام جناب شفیع نشاط مرحوم نے ’’شام قہقہہ‘‘ کے نام سے کیا تھا جس میں مدعو تمام شعراء نے مزاحیہ اشعار پڑھے۔ 
 
۱۹۷۱ء سے میں غزلیں بھی کہنے لگااور اسی سال ینگ سرکل پٹوار بگان (راجہ بازار) کلکتہ۔۹ کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرے میں میں نے پہلی دفعہ غزل سنائی۔ اس مشاعرے کی صدارت حضرت جرم محمد آبادی فرما رہے تھے اور علامہ جمیل مظہری اور حضرت رضا مظہری بحیثیت مہمانان خصوصی شریک بزم تھے۔ نظامت معروف ترقی پسند شاعر اور صحافی جناب انجم عظیم آبادی کے ذمہ تھی جنہوںنے بحیثیت غزل گو میرا تعارف کرایا۔ ابتدائی دو غزلیںاور تین نظمیں میں نے جناب انجم عظیم آبادی کو دکھائیں۔ پھر انہیں کے مشورے پر کہنہ مشق بزرگ شاعر حضرت عبدالمنان صبرؔ شاگرد رشید حضرت مست کلکتوی مقیم راجہ بازار سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگا۔ لیکن حضرت صبرؔ کی عدیم الفرصتی کے سبب یہ سلسلہ زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا۔ اس کے چند مہینوں بعد خوش فکر شاعر جناب موج شاکری مرحوم کے توسط سے علامہ جمیل مظہری کے چھوٹے بھائی اور باکمال شاعر حضرت رضاؔ مظہری کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی شاگردی اختیار کرلی۔ ابتدائی دور میں جناب مقبول احمد، جناب محمد معین الدین (ایڈوکیٹ)،
جناب ماسٹر ساجد حسین، جناب فضل حق (ایڈوکیٹ) اور میرے عزیز دوست جناب محمد طاہر حسین نے
میری بڑی حوصلہ افزائی کی جو نوتشکیل شدہ ادارہ ’’پروگریسیو یوتھ فیڈریشن‘‘ کے خاص اراکین تھے۔
اسی زمانے میں جناب انجم عظیم آبادی کی تحریک پر راجہ بازار کے ادب نوازوں کے تعاون سے ایک ادبی ادارہ ’’مرکز فکر وفن‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور میں اس کی ماہانہ نشستوں میں باقاعدہ شریک ہونے لگا جس سے مجھے حلقہ ادب میں کھل کر متعارف ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ مرکز فکر و فن کے صدر جناب ایس ایم ابوبکر، نائب صدر حضرت عبدالمنان صبرؔ اور معتمد جناب انجم عظیم آبادی کے علاوہ اس کے خاص اراکین میں جناب سفیر الدین کمال، جناب شاہد جمیل، جناب موج شاکری، حاجی کلیم الدین، پروفیسر سلیمان خورشید، جناب محمد ارشاد علی (سابق ہیڈ ماسٹر مومن ہائی اسکول)، جناب انوارالحق مرحوم، جناب محمد انیس، جناب محمد عباس، جناب ابوالحسن مرحوم، جناب خواجہ متین اسلم، جناب محمد منظور عالم، جناب محمد جسیم الدین، جناب مختار اسلم، جناب نظیر احمد، جناب حافظ محمد عثمان، جناب ذوالفقار علی اور جناب محمد منصور الحق مرحوم تھے جنہوںنے میری خوب پذیرائی کی جس سے میرا حوصلہ بلند ہوا۔
شاعر جس علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کی کامیابی میںوہاں کے علاقائی شاعروں، ادیبوں اور ادب نوازوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، چنانچہ راجہ بازار میں بھی شاعروں اور ادیبوں کی اچھی خاصی تعداد آج بھی موجود ہے جن میں بالخصوص جناب اشرف یعقوبی، جناب ممتاز عارفی، جناب فصیح احمد ساحر، جناب غلام احمد عزیزی، جناب ممتاز غازیپوری، جناب مجسم ہاشمی، جناب کلیم آذر، جناب جمیل حیدر شاد، جناب رئیس اعظم حیدری، جناب نسیم فائق، جناب مسلم نواز، جناب عرفان رشید، جناب مضطر افتخاری، جناب شفیق الدین شایاں، جناب ضیاء القمر، جناب یوسف اختر، جناب شین انور، جناب خان شین کنور، جناب شکیل افروز، جناب جہانگیر یاور، جناب شمیم ساگر، جناب م۔ع۔اسرار، جناب معراج احمد اور جناب ارم انصاری وغیرہ کے لئے اظہار تشکر میرے لبوں پر ہیں جن کی پزیرائی نے مجھے توقیر بخشی۔
 
 کوائف 
 
 
نام: محمد حلیم
قلمی نام: حلیم صابرؔ
ولدیت: محمد سلیم مرحوم، والد مجیدن بی بی
تاریخ پیدائش: 26 جنوری 1945ء کلکتہ
تعلیم: میٹرک
آبائی وطن: بہار
وطنِ ثانی: کلکتہ
پیشہ: صحافت (رونامہ اخبار مشرق، کلکتہ)
مطبوعہ تصانیف: 
(1) ترنگ (900 ہائیکو پر مشتمل مجموعہ) 2009
(2) سکھی سہیلی (404 کہہ مکرنیوں کا مجموعہ) 2010
(3) حرف آشنا (104غزلوں کا مجموعہ) 2010
(4) اخلاصِ سخن (216 غزلوں پر مشتمل مکمل دیوان) 2011
ترتیب: (1) مسلمان دنیا میں (دنیا کے 56 ممالک کے مسلمانوں کے حالات) 2011
 (2) دنیا کے مسلم معاشرے میں شادی کے رسم و رواج۔ 2011
 
پـتــہ: 2 چمرو سنگھ لین، نارکل ڈانگہ، کلکتہ۔700011
موبائیل:  9163052340
*************************************************

 

 حلیم صابر کی معتبر شاعری 
 
یہ بات غالباً سال ڈیڑھ سال پہلے کی ہے۔ کلکتے سے ایک صاحب اپنی ملاقات کا شرف بخشنے غریب خانے پر آئے۔ اپنا اسم مبارک حلیم صابربتایا۔ خوبرو، سرخ و سپید رنگ، نکلتا ہو اقد، چھریرہ بدن قیاساً پچاس کے قریب عمر، کل ملاکر جاذبِ توجہ شخصیت کے حامل جی خوش ہوا۔یہ سن کر اور جان کر مزید مسرت ہوئی کہ آپ کا وطن گیا ضلع کا ٹکاری نامی قصبہ ہے اور رشتہ داری تو ہماری شیرگھاٹی کے مولوی گنج محلے میں بھی ہے۔ دورانِ گفتگو یہ معلوم کرکے مزید خوشی ہوئی کہ ا اس خاکسار کو پڑھتے رہے ہیں نیز
معرف و مداح ہیں اور یہی کشش انہیں یہاں کھینچ لائی۔
 
یہ بات بہت مشہور بھی ہے اور اپنے مشاہدے اور تجربے میں بھی ہے کہ نام کا کچھ نہ کچھ اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ غالباً اسی لئے اسلام میں تاکیداً بچوں کے اچھے نام رکھنے کو کہا گیا ہے۔ اب دیکھئے کہ جس شخص کا اصل نام حلیم ہو اور تخلص صابر ہو وہ اپنے کردار سے کیسا ہوگا۔ مجھے تو وہ اپنی گفتگو، اپنی نشست و برخاست، اپنے ہائو جھائو ہر زاویے سے سراپا حلیم بھی نظر آئے اور صابر بھی۔
رخصت ہونے لگے تو اپنے کلام کے کچھ نمونے دیتے گئے ’’کہ میرے دیوان کے لئے کچھ لکھ دیجئے گا۔‘‘ البتہ غالباً میری مجہول صحت کے پیش نظر اتنی رعایت ضرور کی کہ ’’جلدی نہیں ہے۔ حالات موافق ہوں تب ہی لکھئے گا۔‘‘
 
یوں حلیم صابر صاحب کے لئے اب قلم اٹھانے کی توفیق ہوئی ہے۔ ناظرین کو کرید ہوسکتی ہے کہ جب ایسے حلیم و صابر کا معاملہ تھا تو ان کے معاملے میں آپ نے اتنی تاخیر کیوں روا رکھی۔ تو عرض ہے کہ میں نے اسی وقت ان سے کہہ دیا تھا کہ نومیدی کفر ہے۔ اللہ کی رحمت سے ناامیدی تو نہیں ہے لیکن وقت کو پیچھے کی طرف گردش کرتے نہ دیکھا نہ سنا۔ یوں عمر ہر آنے والے دن کے ساتھ زیادہ ہی ہوگی نیز بڑھاپے کے ضعف کی وجہ سے صحت گرتی ہی جائے گی۔ آپ یوں کریں کہ آئندہ جب کلکتے سے تشریف لانے والے ہوں تو مجھے کم از کم ایک ہفتہ پہلے فون کردیجئے گا۔ وقت نکال کر انشاء اللہ کچھ لکھ دوں گا۔ اب ان کا فون آیا ہے کہ ۱۵؍اکتوبر کو تشریف لارہے ہیں۔ یوں ایفائے وعدہ کے لئے قلم سنبھال لیا ہے۔ 
 
ابھی ماضی قریب تک شعراء کی عام روش یہ تھی وہ اپنی غزلیات کا دیوان ہی مرتب بھی کرتے تھے اور شائع بھی کراتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے روش نے پلٹا کھایا اور ایک آدھ مثال سے قطع نظر غالباً تمام شعراء اپنی تخلیقات کے مجموعے ہی شائع کرتے رہے ہیں اور یہ روش اتنی عام ہوئی ہے کہ نو واردانِ بساطِ سخن یہ پوچھنے لگے ہیں کہ دیوان کیا ہوتا ہے؟ 
 
حلیم صابر چونکہ بزرگ شعراء کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں اور پرانی تہذیبی اقدار کے دلدادہ ہیں اس لئے اپنا دیوان ہی شائع کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے خواہش مند یہ بھی ہیں کہ دیوان سے متعلق بھی چند جملے لکھ دیئے جائیں۔ عرض ہے کہ دیوان جنت سے اُتری ہوئی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ عام طور پر شعراء اپنی غزلیات کے مجموعوں ہی کو دیوان کہتے تھے البتہ دستور یا روش یہ تھی کہ ابتدا ہمیشہ حمدیہ اور نعتیہ غزلوں ہی سے کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی تہذیب بھی تھی اور غالباً حصول برکت کی نیت بھی اس کے پیچھے کارفرما تھی۔ بعض حضرات تو منقبتیہ، مناجاتیہ اور دعائیہ غزلیں بھی شامل کرتے تھے۔
دیوان کے لئے سب سے بڑ الازمہ یہ تھا کہ از ابتداء تا انتہا تمام غزلیں ردیف وار ترتیب دی جاتی تھیں۔ بعض حضرات عربی کے حروف تہجی کا لحاظ رکھتے تھے، بعض فارسی کے حروف تہجی کو بھی شامل کرلیتے تھے اور بعض اردو کے حروف تہجی کے مطابق دیوان ترتیب دیتے تھے۔ حلیم صابر صاحب نے اسی آخری روش کی پیروی کی ہے۔ 
 
دیوان کی ردیف وار غزلوں کے خاتمے پر بعض نظمیں یہاں تک کہ تقریبی نظمیں یعنی سہرے وغیرہ اور قطعات و رباعیات بھی شامل کرلی جاتی تھیں۔ قطعہ تاریخ طباعت یا پھر تقریظات کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ تو گویا کل ملاکر یہی دیوان کی ہئیتِ ترکیبی ہوتی تھی۔حلیم صابر صاحب کا نئی نسل پر یہ بھی ایک احسان ہی ہے کہ وہ ان کے دیوان کو دیکھ کر دیوان کے خدو خال سے آشنا ہوجائے گی۔ 
جہاں تک حضرت حلیم صابر کے کلام کی قدرو قیمت کا تعلق ہے میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نکھرا، ستھرا، لسانی اعتبار سے بے داغ، فنی زاویے سے چست و درست کلام فی زمانہ کم شعراء کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔
 
بنیاد ی طو رپر صابر غزل کے شاعر ہیں البتہ میرا خیال ہے کہ وہ ’’ادب‘‘ کا مفہوم بھی بخوبی سمجھتے ہیں اس لئے غزل کے جملہ محاسن کا احاطہ کرتے ہوئے بھی کبھی ادبی دائرے سے باہر انہوں نے قدم نہیں رکھا اور یہ بڑی بات ہے۔ نیز اپنے کلام کو معنویت کی اس بلندی تک پہنچایا ہے کہ بحیثیت غزل گو ان کا نام زندہ رہے گا۔ انشاء اللہ۔ اس کا ادراک انہیں خود بھی ہے چنانچہ فرماتے ہیں ۔
 
نام میرا بھی صابر ضرور آئے گا
لکھی جائے گی جب داستانِ غزل
 
آپ اسے چاہے میری خوبی قرار دیں یا خرابی میرا گمان ہے کہ اچھا ادب اچھا انسان ہی تخلیق کرسکتا ہے لہذا میں شاعر کے معتقدات پر بھی نظر ڈالتا ہوں اور جب ان اشعار پر نگاہ جاتی ہے تو جی خوش ہوتا ہے۔ 
 
خدا کی ذات پہ مجھ کو یقین ہے صابرؔ
مرے یقین کو وہم و گمان پر مت رکھ
 
اُن کی یادوں سے نہ ہم غافل رہے صابرؔ کبھی
وہ نظر سے دور رہ کر بھی رہے دل کے قریب
 
صابرؔ اس میں برکتیں ہوں گی حاصل آپ کو
جو بھی کام کیجئے رب کے نام سے شروع
 
اس کا یہ مطلب نہیں کہ صابر کسی گوشہ نشیں بزرگ کی طرح اپنی شاعری میں بھی ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ کرتے رہے ہیں بلکہ دکھانا یہ مقصود تھا کہ شاعر کا ذہن صالح خطوط پر تعمیر ہوا ہے اور اسی کی روشنی میں اُس نے زندگی اور اُس کے تمام تر پہلوئوں پر اپنے معتقدات، محسوسات اور مشاہدات کی ترجمانی ایک خط مستقیم پر کی ہے چنانچہ آپ اُن کے ان اشعار پر نگاہ ڈالیں جہاں طرزِ اظہار کی تازگی بھی، عصری تصورات کی جلوہ گری بھی ہے اور زبان و ادب کو نئے رجحانات و امکانات سے روشناس کرنے کی سعی بھی ہے۔ 
 
مصیبت کو جگا دیتی ہے صابرؔ
سکوتِ شب میں نادانوں کی آہٹ
 
حریفوں کا سلوکِ دوستانہ
نہ کیوں ہو میری حیرانی کا باعث
 
یہ نتیجہ ہے ہمارے صبر کا صابرؔ کہ آج
ہے ستم ڈھانے پہ آمادہ ستم گر کا مزاج
 
اندھیرے بھی شعلے اگلتے ہیں اب
گھروں میں رہو شام ڈھلنے کے بعد
 
ہورہا ہے آج صیادوں میں صابرؔ مشورہ
اونچی کی جائے گی دیوارِ قفس اب کے برس
 
جو خالی تھیں صداقت کے اثر سے
وہ باتیں معتبر کردی گئی ہیں
 
میں نے حال ہی میں ایک معروف استاد شاعر کو اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے دیکھا سنا ہے کہ پرانے الفاظ و اصطلاحات مثلا وفا، جفا، ستم، صیاد، قفس، شمع پروانہ کے سے الفاظ کا استعمال قطعی ترک کردو۔ صابرؔ صاحب کے مندرجہ بالا اشعار دیکھئے اور داد دیجئے کہ سلیقہ ہو تو الفاظ نہ پرانے ہوتے ہیں نہ اپنی معنویت کھوتے ہیں۔
مٹھی بھر نمونے کی غزلوں سے میں نے دانستہ چند مقطعے منتخب کئے ہیں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ خصوصاً فنی طورپر صابرؔ کے کلام تازہ کار شعراء کے لئے شمعِ راہ کا کام انجام دیں گے۔ وہ بجا فرماتے ہیں کہ
 
صابرؔ مری زبان ترازو ہے شعر کی
مفعول فاعلات مفاعیل کی طرح
 
لہذا قارئین سے التماس ہے کہ صابرؔ کو اسناد سے نہ ناپیں۔
 
سند رکھتا نہیں میں کوئی صابرؔ
مجھے اسناد کی نسبت سے مت ناپ
 
بلکہ زندگی کی شاہراہ پر حسب توفیق دیئے سے دیا جلانے کی سعی کرتے ہیں تاکہ زندگی کی تاریک راہیں روشن ہو اٹھیں۔
 
نہ ہوتا روشنی کاقحط صابرؔ
جلا دیتا جو ہر کوئی دیا ایک
 
مجھے یقین ہے کہ اس باکمال استاد شاعر کا کلام قارئین کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔ وما توفیقی الا باللہ۔
 
ناوکؔ حمزہ پوری
دارالادب، حمزہ پور
۳؍اکتوبر ۲۰۰۸ء
 
 
 حلیم صابر کی غزلیں 
 
شاعری کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا شبلی نعمانی کا ارشاد ہے کہ شعر شریفانہ جذبات کو تروتازہ کرتا ہے، ہم کو بے غرض اور بے لاگ دوستی کی تعلیم دیتا ہے اور اس طرح محسوسات کے دائرے سے نکال کر ہم کو ایک وسیع اور دلفریب عالم میں لے جاتا ہے۔ شعر کی اس حقیقت کو اگر ہم نگاہ میں رکھیں تو شاعری شرافت، نفاست، اخلاص اور انکساری کی صفات کو پیدا کرتی ہے اور نفرت، تعصب اور تنگ نظری سے دور رکھتی ہے۔ مسرت کے ساتھ ساتھ بصیرت سے ہم کنار کرنا بھی اس کی خصوصیت ہے۔ حلیم صابر کی غزلوں میں ہمیں جابجا ایسی مثالیں ملتی ہیں جو جذبات عالیہ کی ترجمانی کرتی ہیں۔ انہوں نے سیدھے سادے الفاظ میں ان کی عکاسی کی ہے۔ ان کی مشق و مزاولت نے اشعار میں ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کردیا ہے:
 
سامنے مقتول کے جو کررہے تھے احتجاج
ہوگئے گونگے سبھی جب آئے قاتل کے قریب
 
وہ زندگی تو کوئی زندگی نہیں ہوتی
کہ جو ہجوم جہاں سے فراغ چاہتی ہے
 
آدمی کو آدمی دیتا ہے زک
اٹھ گیا اب آدمیت کا لحاظ
 
کرب اوروں کا بھی کردیتا ہے مجھ کو اشکبار
اس قدر نازک ہے میرے دیدۂ تر کا مزاج
 
آدمی اُس کو نہیں کہتے
جو نہ سمجھے آدمی کا کرب
 
گنوا دیتی ہے وہ شیریں بیانی
زباں مت رکھئے شیخ محترم تیز
 
غزل اردو شاعری کی محبوب ترین صنف ہے۔ یہ ہر دور میں ہماری ہم قدم رہی ہے۔ رنج و راحت، خوشی و غم زندگی کے ہر مرحلے میں اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اس کی ایک مستحکم روایت ہے۔ حلیم صابرؔ کو اس روایت کا ادراک ہے اور انہوں نے اپنے حسن بیاں اور لطافت زبان سے اس روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے لیکن اس دُھن میں یہ عصری مسائل سے صرف نظر نہیں کرتے۔ ارد گرد میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں اور عصری زندگی کے درد و داغ اور شکست و ریخت کو بھی شاعرانہ زبان بخشتے ہیں۔ یہ کھلی آنکھوں سے حقیقت و خواب کے ہر منظر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور فنکاری سے اشعار کے پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔ سنجیدگی، متانت اور میانہ روی ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں:
 
چہرگی ، بے چہرگی کا کرب
اپنا اپنا ہے سبھی کا کرب
 
ستارے خوف سے سہمے ہوئے ہیں
خلائوں میں ہے انسانوں کی آہٹ
 
دیئے جو زخم دل پر دوستوں نے
انہیں سے ہے ہمارے دل کی رونق
ہم نے سینچا ہے خونِ جگر سے اسے
کیوں نہ شاداب ہو گلستانِ غزل
 
کیا تھا خواب نے ہم کو حقیقتوں میں شمار
حقیتیں یہ سمجھتی رہیں کہ خواب تھے ہم
 
نئے زمانے کا ہے تقاضا
لباسِ کہنہ کو اب اتارو
 
حلیم صابرؔ نے شاعری کا آغاز ۱۹۷۱ء میں اس وقت کیا جب ان کی عمر پچیس چھبیس سال کی تھی۔ انہیں حضرتِ رضا مظہری سے شرفِ تلمذ ہے۔ جب تک رضا صاحب باحیات رہے یہ ان سے مشورہ کرتے رہے۔ ان کی وفات (۱۹۸۵ئ) کے بعد کسی اور سے اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنی طبع سلیم کی رہنمائی میں شعر کہتے رہے۔ غزلوں کے علاوہ دوسری اصنافِ سخن پر بھی طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن ان کا اصل کارزارِ سخن غزل ہی ہے اور اسی میں ان کے جوہر کھلتے ہیں۔ غزل کے لغوی معنیٰ ’’بازناں سخن کردن‘‘ (عورتوں سے بات چیت) ہیں۔ آج غزل کے مضامین میں بہت تنوع اور وسعت آئی ہے اور ہر طرح کے خیالات غزل میں ڈھائے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود کم و بیش ہر شاعر نے اس کے لغوی معنی کو پیش نظر رکھ کر بھی شعر کہے ہیں اور اپنے قلبی احساسات کو شعر کی زبان عطا کی ہے۔ حلیم صابر کے یہاں بھی اس رویے کی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے حسن محبوب کو مثالیت کا درجہ دیا ہے اور یادوں سے وابستہ میلانِ طبع کا اظہار کیا ہے:
 
ہورہی تھی خوشنما پھولوں کی بات
آگیا اُن کے شگفتہ لب کا ذکر
 
جھلملانے لگے چاندی کے تار
رہ گئی دل میں کنواری خواہش
 
ابھی باقی ہے اجڑے دل کی رونق
تری یادیں ہیں اس محفل کی رونق
 
ہوئی ویراں تمنائوں کی محفل
کہاں اب دل میں ارمانوں کی آہٹ
 
قدیم شعراء اپنی غزلوں کا دیوان الفبائی تہجی کے لحاط سے ترتیب دیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ہر حرفِ تہجی کی ردیف میں اشعار شامل دیوان ہوں۔ حلیم صابرؔ نے بھی اسی روایت کی تقلید کی ہے اور اپنا مجموعۂ شعر دو سو سے زائد غزلوں پر مشتمل دیوان کی شکل میں پیش کررہے ہیں۔ یقین ہے کہ اہلِ فکر ونظر اس کی پذیرائی کریں گے اور باذوق قارئین ان کے اشعار سے احتظاظ و انشراح حاصل کریں گے۔ 
 
 
علقمہ شبلی
سابق وائس چیئرمین مغربی بنگال اردو اکیڈمی
۲۷؍دسمبر ۲۰۰۷
 
***********************
 
You are Visitor Number : 2929