غزل
٭……عالمؔ خورشید
مل کے رہنے کی ضرورت ہے بھلا دی گئی
یاں محبت کی عمارت تھی گرادی گئی کیا
بے نشاں کب کے ہوئے سارے پرانے نقشے
اور بہتر کوئی تصویر بنا دی گئی کیا
منہ اٹھائے چلے آتے ہیں اندھیروں کے سفیر
وہ جو اک رسمِ چراغاں تھی اٹھا دی گئی کیا
ایک بندے کی حکومت ہے خدائی ساری
یہ منادی بھی زمانے میں کرادی گئی کیا
اب کے پانی میں نظر ااتی ہے سرخی کیسی
بہتے دریا میں کوئی چیز ملادی گئی کیا
کم سے کم دیکھ تو لیتا میں فصیلِ زنداں
میری زنجیر کو وسعت ہی ذرا دی گئی کیا
میں اندھیروں میں بھٹکتا ہوں تو حیرت کیسی
میرے رستے میں کوئی شمع جلادی گئی کیا
****