غزل
کلیجا منہ کوآتا ہے شبِ فرقت جب آتی ہے
اکیلے منہ لپٹے روتے روتے جان جاتی ہے
لب نازک کے بوسے لوں تومسی مُنہ بناتی ہے
کفِ پاکواگرچوموں تومہندی رنگ لاتی ہے
دکھاتی ہے کبھی بھلا، کبھی برچھی لگاتی ہے
نگاہِ نازِ جاناں ہم کوکیاکیاآزماتی ہے
وہ بکھرانے لگے زلفوں کوچہرے پرتومیں سمجھا
گھٹامیں چاندیامحمل میں لیلیٰ منہ چھپاتی ہے
بلائے جاں ہوئیں میرے لیے آرائشیں اُن کی
نہ مہندی پائوں چُھونے دے نہ مِسی منہ لگاتی ہے
کرے گی اپنے ہاتھوں آج اپناخون مشاطہ
بہت رچ رچ کے تلووں میں ترے مہندی لگاتی ہے
نہ کوئی جوڑاُس عیارپراب تک چلااپنا
یہاں دم ٹوٹتاہے اوردم میں جان جاتی ہے
تڑپنا،تِلملانا،لوٹنا،سرپیٹنا،رونا
شبِ فروخت ،اکیلی جان پرسوآفت آتی ہے
پچھاڑیںکھارہاہوں، لوٹتاہوںدردِفرقت سے
اجل کے پائوں ٹوٹیں کیوں نہیں اس وقت آتی ہے
نہ نہرِباغ پرہے بنداے آسیؔ نہ شبنم پر
خدائی میری حالت دیکھ کرآنسوبہاتی ہے
++++