غزل
نہ سنتے تم جودشمن کی زبانی
بہت دلچسپ تھی میری کہانی
کہو بے جا ہے میری بد گمانی
کہاں دشمن کہاں رازِ نہانی
گلا حاضر ہے لیکن فائدہ کیا
کہ ظالم تو ہے میری زندگانی
عداوت انتہائے دوستی ہے
عدوئے جاں ہے میرا یارِ جانی
تسلی کل کے وعدے پر غضب ہے
غمِ عشق اور امیدِ زندگانی
کہاں یوسف کہاں وہ روئے زیبا
خدا کو ہے مجھے صورت دکھانی
مرے دل کی تمنا ہے مگر تو
سن اے بحرِ کرم یہ بیکرانی
مآل اس کا قیامت ہے قیامت
وہ آفت کی جگہ ہے دارِ فانی
نہ سمجھا میں تو دشمن ہی سمجھتا
محبت ہے خرابی کی نشانی
نظر آجا کہیں اے جسمِ لاغر
دکھائوں کیوں ان کو ناتوانی
بس اے سیلابِ اشک چشم تر بس
عناصر کی ہیں دیواریں پرانی
یہ دونوں ایک ہی ترکش کے ہیں تیر
محبت اور مرگِ ناگہانی
پیمبر گر پڑے ہیں تلملاکر
معاذ اللہ خدنگ لن ترانی
سبک سر ہے عدو روٹھا بلا سے
حبابوں کی بھلا کیا سرگرانی
انا الحق اور مشت ِ خاک منصور
ضرور اپنی حقیقت اس نے جانی
بقا جس شے کو ہو وہ چاہتا ہوں
سن اے تیرے سواسب کچھ ہے فانی
کمالِ جلوہ ہے پردے سے بڑھ کر
بجا ہے یار تیری لن ترانی
علم کر خلد میں بھی خنجرِ ناز
تصدق ہے حیاتِ جاودانی
دلِ شوریدہ اور ان سے مقدر
کہاں تک کہئے اسرارِ نہانی
ہزاروں حسرتیں اس میں بھری تھیں
غبار اس قافلے کی ہے نشانی
سیاہی کچھ جو بالوں میں ہے باقی
بڑھاپے میں ہے یہ داغِ جوانی
بھلا آسی کے شکووں کا گلا کیا
محبت کو ہے لازم بد گمانی
٭٭٭