غزل
ان کا نہ تصور بھی کرتا جو ہم آغوشی
ہے ہے شب تنہائی کس طرح بسر ہوتی
محفل میں جو تو آتا پہلے کی طرح سے پھر
آنکھوںمیں جگہ تیری اے نورنظرہوتی
کھڑکی جو کبھی کھلتی پھرتے نہ تماشائی
بند آپ کے کوچے میں ہر راہ گذر ہوتی
کیا آبرو آجاتی موتی کی لڑی بنتے
اشکوں میں اگر خشکی اے دیدۂ تر ہوتی
کس واسطے ہم دل کو چھاتی سے لگا رکھتے
تصویر بھلا اس میں تیری نہ اگر ہوتی
دل میں بھی کہیں ایسا ہی کچھ درد اگر ہوتا
چھٹی ہی میری پھر تو اے درد جگر ہوتی
دانت ان کے جو کھل پڑتے آرائش ابرو میں
تلوار کے چھائوں میں بھی آبِ گہر ہوتی
سنتے ہیں گنہ گاروں کی آج رہائی ہے
آسی کی بھی بخشائش اے خیر بشر ہوتی
٭٭٭