donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* جو رہی اور کوئی دم یہی حالت دل کی *

غزل

جو رہی اور کوئی دم یہی حالت دل کی
آج ہے پہلوئے غم ناک سے رخصت دل کی
کیا لکھے عاشق بے تاب مصیبت دل کی
جی بگڑتا ہے جو لکھتا ہے عبارت دل کی
نہیں ممکن ہے لٹیروں سے حفاظت دل کی
پھیر آئوں انہیں چل کر میں امانت دل کی
مہندی مل کر مرے سینے نہ پامال کیا
دل کیطرح آج لہو ہو گئی حسرت دل کی
گھر چھُٹا، شہر چھُٹا، کوچہ دار چھُٹا
کوہ و صحرا میں لئے پھرتی ہے وحشت دل کی
سرِ عارفِ طرفِ دل ہی جھکا رہتا ہے
ہے مگر خاکِ درِ یارِ سے خلقت دل کی
غم دل ذار ہے خواہاں تو حوالے کردے
تجھ کو اے عاشق بے تاب ضرورت دل کی
آگئے وہ کہ پڑی جان دلِ بے جاں میں
اُٹھ چلے وہ کہ ادھر ہو گئی رخصت دل کی
دل کی تاثیر سے سب کچھ ہے یہاں ہو کر وہاں
دونوں عالم میں سمجھتا ہوں ولایت دل کی
جو اڑا ذرہ دل زار کسی کا نکلا
کوئے دل بر میں نظر آئی یہ کثر ت دل کی
ہو گیا نافِ سویدا کرہ چرخ کہود
سینہ تنگ میں اللہ ! یہ وسعت دل کی
کعبہ ہو ابروئوں کا اور محبت کی نماز
اقتدار عاشقِ بے دل کی امامت دل کی
کس طرح صورتِ منصور انا الحق نہ کہے
دارِ دنیا میں سمجھ لے جو حقیقت دل کی
باغ کو عاشقِ دل گیر نے سمجھا دل دار
غنچۂ گل میں نظر آئی جو صورت دل کی
دل دیا جس نے کسی کو وہ ہوا صاحبِ دل
ہاتھ آجاتی ہے کھودینے سے نعمت دل کی
جس سے پیوندکیا پائی شکستِ خاطر
ہائے تقدیر یہ پھوٹی ہوئی قسمت دل کی
کوچۂ یاد سے گھبرا کے نکلنا کیا تھا
دل کو شکوے ہیں مرے مجھ کو شکایت دل کی
خرد و تاب و واں سے کہو مل کر رولیں
پہلوئے عاشقِ بے کس سے ہے رخصت دل کی
پہلوئے عاشق بے دل میں بس اک آبلہ ہے
اُن کو کیا کہئے جو رکھ دیتے ہیں تہمت دل کی
اب کسی یار سے مطلب ہے نہ اغیار سے کام
کنجِ عزلت میں رہا کرتی ہے صحبت دل کی
یوں وہ بے دید کسی طرح نہیں ماننے کا
چل کے آنکھوں سے دکھا دو اسے حالت دل کی
دل کو چھیدے ہوئے نکلا جو کہیں تیر ترا
دل کے ساتھ آج نکل جائے گی حسرت دل کی
تم گلستانِ جہاں میں گلِ یک رنگ ملے
کان لائو تو سنا دوں میں حکایت دل کی
نقد و جنسِ خرد و صبر و سکو ں کچھ بھی نہیں
لُٹ گیا عاشق دل گیر بدولت دل کی
دونوں پہلو کئے سنسان غمِ دل برنے
اب نہ بہتان جگر کاہے نہ تہمت دل کی
شبِ ہجر اس کے تصور کو جگہ دوں کس میں
بے دلی میں کبھی پڑ جاتی ہے حاجت دل کی
دیکھ لیتے تھے اسی طرح کسی کو اُس میں
آئینہ دیکھ کے یاد آتی ہے صورت دل کی
دیکھئے آنکھوں میں جالے پڑے روتے روتے
خوب چھن چھن کے نکلتی ہے کدورت دل کی
منہ خفا ہو کے بنا لیتے ہو اتنے کے لئے
ایک بوسے میں نکل جائے گی حسرت دل کی
راستہ چھوڑ دیا اس نے اُدھر کا آسی
کیوں بنی رہ گزرِ یار میں تربت دل کی

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 530