غزل
وہ اور جدا ہم سے یہ تقدیر ہماری
کچھ اُن کی خطا اس میں نہ تقصیر ہماری
کیا جانو بھلا گلشِ ہستی کی حقیقت
اس گل سے ہے ملتی ہوئی تصویر ہماری
کیوں بھیجیں وہ جنت میں ہمیں اپنی گلی سے
ہاں کوئی خطا قابل تعزیت ہماری
جو حلقہ ہے حلقہ ہے وہ پاکان ازل کا
آزادی کونین ہے زنجیر ہماری
اعمال کی پر شش تجھے ہم کو یہ تفحص
رحمت تری بڑھ کر ہے کہ تقصیر ہماری
تم کیا ہوے قابو میں کہ قابو میں ہم آئے
تسخیر تمہاری ہوئی تسخیر ہماری
آئے وہ مرے گھر کششِ جوش جنوں سے
اللہ رے یہ خوبی تقدیر ہماری
تدبیر یہ نکلی کہ انہیں پھانس کے لائے
ہنستی رہی تقدیر کو تدبیر ہماری
شاگرد ہے کس کا فلک پیرستم میں
گروش میں تو استاد ہے تقدیر ہماری
صورت میں پڑے جان جو اچھا ہو مصور
سنتے ہو جسے قیس، ہے تصویر ہماری
دنیا میں اٹھا لائی ہے فردوس بریں کو
بد مستی صہبا و مزا میر ہماری
ہر گز حرکت اپنے ارادے سے نہ کرنا
چلتے ہیں تو چلاتی ہے زنجیر ہماری
پہچان لیا جلوہ گرِ خانہ دل کو
آئینہ معمار ہے تعمیر ہماری
وعدے کئے اس شوخ نے آنے کے شبِ غم
اب دیکھئے کیا کرتی ہے تقدیر ہماری
آسی اگر ادراکِ حقیقت ہو میسر
ہے انفس و آفاق میں تاثیر ہماری
٭٭٭