غزل
آئینہ آپ کے نزدیک جو نا محرم ہے
آپ نے خاک نہ جانا کہ مجھے کیا غم ہے
مار ڈالو بھی کسی دن تو نہ دعویٰ نہ گواہ
بے خودی ہے ، کوئی مونس نہ کوئی ہمدم ہے
دیکھتے ہو جگر و دل کے لہو کا سہرا
علم نالہ بے داد میں کیا پرچم ہے
میرے دشمن کو نہ مجھ پر کبھی قابو دینا
تم نہ منہ پھیر لیا آہ یہی کیا کم ہے
جز ترے کچھ نہیں موجود، تری ذات ہے وہ
جا بجا تو نظر آتا ہے یہی عالم ہے
جو اُڑی خاکِ قدم جان پڑی اس میں ضرور
کیا ہوا جنبشِ دامن کی مسیحا دم ہے
وصل کی شب در و دیوار سے آئی آواز
خواہشوں کو جو پچھاڑے وہ بڑا رستم ہے
ایک عالم کے طلسمات میں جی چھوٹ گیا
ہر ادائے نگہِ یار نیا عالم ہے
کیوں نہ دی جان کسی پر کہ نہ پھر موت آتی
زندگی مفت گنوائی یہ بڑا ماتم ہے
ہائے کیا بوجھ بڑھاپے میں بھرا تھا اللہ
سر تو سینے میں گھسا پیٹھ کمر تک خم ہے
تو نے کیا ذکر کہاں آکے نکالا واعظ!
یہ وہ کوچہ ہے کہ جس میں غمِ جنت سم ہے
چاکِ دل ہے غم ِ عالم نظریار رفو
زخم کاری ہے غم عشق، فنا مرہم ہے
قالب ِنظم میں جو پھونک دے جان اے آسی
نہ وہ عیسیٰ ہیں نہ موسیٰ، وہ ہمارا دم ہے
٭٭٭