غزل
دوں پتا دردِ دل میں فانی کا
بھیس سارا ہے یارِ جانی کا
کس سے کیا ہو سکا بڑھاپے میں
کس کو ماتم نہیں جوانی کا
دردِ دل لطف زندگانی ہے
غمِ سبب عیشِ جاودنی کا
تیشۂ کوہکن نے خوب لکھا
ماجرا میری خوں فشانی کا
نقشِ پا کو کوئی اٹھا نہ سکا
دیکھنا زور ناتوانی کا
غم نے خم کرکے جسمِ لاغر کو
خوب چھلا دیا نشانی کا
آبرو ہو جو دل میں رقت ہو
دیکھ موتی ہے قطرہ پانی کا
غیر کا اب گذر نہیں دل تک
عشق عہدہ ہے پاسبانی کا
دہنِ تنگ یار کا حلقہ
دور ہے جامِ لن ترانی کا
نہ نمک عشق کا نہ زخمی دل
کچھ نہ پایا مزا جوانی کا
ہم تو آسی انہیں بلا لائیں
کیا ہے سامان مہمانی کا
٭٭٭؎