غزل
کلامِ دردآگیں کی صفائی جان لیتی ہے
عروسِ فکرِآسیؔ رُونمائی جان لیتی ہے
دمِ نزع رواں اچھی طرح ثابت ہوامجھ کو
فرشتہ بن کے بھی تیری جدائی جان لیتی ہے
جوعاشق ہے توعالی ظرف ہوورنہ حباب آسا
تنک ظرفوں کی آخرآشنائی جان لیتی ہے
کڑاکیاچوڑیاں بھی قالب بے جاں نظرآئیں
نہیں کہتے تھے ہم تیری کلائی جان لیتی ہے
زبانِ موج ہرپھرکریہ کہتی ہے حبابوںسے
ہواسرکش کے سرمیں جب سمائی جان لیتی ہے
بسانِ شمع بہہ جاتاہے ساراجسم گھل گھل کر
جنوں نے آگ جب سرمیں لگائی جان لیتی ہے
مگرعمرِ رواں کی شان رفتہ رفتہ پیداکی
کہ اس سرورواں کی بیوفائی جان لیتی ہے
بجزعشاق،سم ہے بوسۂ خالِ رُخ جاناں
کہ بے عادت جہاں افیون کھائی جان لیتی ہے
بہت مشکل ہے جیناآدمی کوعاشقی کرکے
اجل جس وقت جس کے سرپرآئی جان لیتی ہے
جگردل ٹکڑے ٹکڑے ہوکے گرپڑتے ہیں آنکھوں سے
نگاہِ ناز کی تیغ آزمائی جان لیتی ہے
جوبرّاتاہے سوتے میں بھی آسیؔ تویہ کہتاہے
الہیٰ اب توان کی پارسائی جان لیتی ہے
٭٭٭