غزل
وصل ہے پردل میں اب تک ذوقِ غم پیچیدہ ہے
بلبلاہے عین دریا میں مگرنم دیدہ ہے
سجدہ تیرافرض سمجھاجوتراگرویدہ ہے
ماہِ نوپیر ِفلک کا جبہۂ سائیدہ ہے
آنکھیں تجھ کوڈہونڈتی ہیںدل تیراگرویدہ ہے
جلوہ تیرادیدہ ہے صورت تیری نادیدہ ہے
بے حجابی وہ کہ ہرشئے میںہے جلوہ آشکار
گھونگھٹ اس پریہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے
دل کی وسعت وہ کہ نقطے سے بھی کم سات آسماں
جسم یہ لاغر،خطِ وہمی سے بھی کاہیدہ ہے
فتنہ زارِحشرسب سمجھے ہیںجس میدان کو
دامنِ نازِنگہ کاگوشۂ جنبیدہ ہے
دیجئے کس چیزسے تشبیہ تیرے حسن کو
ایک توہی دیدہ ہے تیرے سوانادیدہ ہے
دم بخودرہنے دوکیوںرسواہومجھ کوچھیڑکر
غیردریابلبلے میں اورکیاپوشیدہ ہے
دیکھ کرمحشرخرامی اُن کی اب سمجھاہوںمیں
ذرہ ذرہ کاروانِ فتنۂ خوابیدہ ہے
دادیٔ عرفان میںداغ تہمت دخلِ دوئی
نقش پائے ناتواںِعارفِ لغزیدہ ہے
منہ لگاناتھاکہ سبب گردِکدورت دُورتھی
بادۂ گل گوں مزاجِ عاشقِ رنجیدہ ہے
ہجرمیں کیسازمین وآسماں کافاصلہ
جوستاراہے وہ داغِ حسرتِ بالیدہ ہے
اتنے بت خانوں میں سجدے ایک کعبے کے عوض
کفرتواسلام سے بڑھ کرتراگردیدہ ہے
آدمی کی سرکشی غفلت ہے اپنی اصل سے
ذوقِ سجدہ قطرۂ اُفتادہ میں پیچیدہ ہے
بادۂ رنگِ فناکاشیشہ ٔ نازک مزاج
یاحبابِ بحریامیرادلِ شوریدہ ہے
دیرکیوں اے اذنِ جنت منزلِ میزاں کے بعد
اب توظاہرہے کہ میراہرعمل سنجیدہ ہے
عاشقِ گریاں نے رات اپنی تڑپ کرصبح کی
چشم اشک الودہ بھی ہے زخم نمک پاشیدہ ہے
چشمِ نقشِ پاسہی کیوںاس کوہوبیم فنا
جس نے تیری چال کودیکھاقیامت دیدہ ہے
حشرمیں منہ پھیرکرکہناکسی کاہائے ہائے
آسیؔ گستاخی کاہرجرم نابخشیدہ ہے
٭٭٭