غزل
مرتاہوں میں جس پروہ جوان عربی ہے
مکی مدنی ہاشمی ومطلبی ہے
دل ہے کہ شہیدخم ابروئے نبی ہے
گردن ہے کہ ہردم تہ تیغ عربی ہے
اے پائے نظرہوش میں آکوئے نبی ہے
آنکھوں سے بھی چلناتویہاں بے ادبی ہے
رنگ آئینہ کی طرح ہے جس سے مہ کنعان
کیاجلوۂ دلداردل آرائے نبی ہے
اللہ سے ملتی ہے تیری اصل مکرم
اے نورخداکیاتیری اعلیٰ نسبی ہے
موسیٰ کی طرح خودارنی گوہے خدابھی
کیاصلّ ِعلیٰ حسن جوان عربی ہے
مردہ ہے مسیحاتیری رفتارکے آگے
جان بخش کوٹھوکرسے تیری جان طلبی ہے
کیوں کرنہ ہورفتارمیں گفتارمیں سوناز
نازک بدنی بے کمری غنچۂ لبی ہے
ہے نام الہی بھی تیرے نام سے روشنی
اے احمدبے میم یہ کیاخوش لقبی ہے
جب کھینچ نہ سکے دوسری نقاش ازل سے
کھینچے کوئی تصویرتیری بوالعجبی ہے
کیارتبے ہیں اللہ رے بیماروں کے تیرے
خودجن سے مسیحاکوبھی درمان طلبی ہے
وہ شافع عصیاں ،میں گنہ گارہوںآسیؔ
وہ بحرِعنایت ہیں یہاںتشنہ لبی ہے
٭٭٭