غزل
نہ کبھی کے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ کیفِ شراب ہے
لب ِیارچُومے ہیں خواب میں وہی جوشِ مستیِ خواب ہے
مئے عشق جس سے ٹپکتی ہے دلِ سوختہ وہ کباب ہے
جوکر ے کباب دل وجگراُسے سمجھیں ہم کہ شراب ہے
وہی پیشِ چشم ہے ہرنظرمگراب بھی شوقِ نقاب ہے
وہی میری ہررگ وپے میں ہے مگراب بھی مجھ سے حجاب ہے
کبھی میری بھی تجھے چاہ تھی ترے دل میں میری بھی راہ تھی
کبھی اس طرف بھی نگاہ تھی کہ یہ سب خیال ہے خواب ہے
دلِ مبتلاہے تراہی گھراسے رہنے دے کہ خراب کر
کوئی میری طرح تجھے مگرنہ کہے کہ خانہ خراب ہے
اگرآنکھ کھولوتوکچھ نہیں اثرِوجودبجزفنا
ہے سوادِ ہستی ٔبے بقاکہ بیاضِ چشمِ حباب ہے
اُنہیں کبرِ حُسن کی نخواتین مجھے فیضِ عشق کی حیرتیں
نہ کلام ہے، نہ پیام ہے، نہ سوال ہے ، نہ جواب ہے
کوئی گل نہیں کہ نہ جس میں ہومرے گل کی نکہتِ جاں فزا
مرے مست کرنے کوپھول بھی توچمن میں بادۂ ناب ہے
کبھی تجھ کودل میں بھی غورہے کہ نظارے کایہی طورہے
یہ سمجھ تری کہ وہ اورہے یہی منہ پراس کے نقاب ہے
یونہی اپنے کوچے میں رہنے دے نہ عبث اٹھاکے ستامجھے
جواٹھے تودودِ جگراٹھے کہیں مجھ میں اٹھنے کی تاب ہے
دلِ عندلیب یہ شق نہیں، گل ولالہ کے یہ ورق نہیں
مرے عشق کاوہ رسالہ ہے ترے حُسن کی یہ کتاب ہے
جوحجاب تھاوہ اٹھامگرکہ وہ دل میں اب ہوئے جلوہ گر
مرے گھرمیں بار ے کیاگزریہ خیال کہیے کہ خواب ہے
کہیں پوچھ ہی اٹھے وہ صنم کوئی دم کٹاہے بغیرِغم
وہ محاسبے میں ہے دم بہ دم جسے خوفِ روزِ حساب ہے
پے ترکِ شاہددمے ابھی کروں استخارہ میںکس طرح
وہ جوخاکِ پاک کی سبحہ تھی وہی رہنِ جامِ شراب ہے
وہ ہزارآسیؔ زارسے ملیں لطف سے رحم سے پیارسے
مگراپنے دل میں نہ دیں گے گھرکہ وہ ایک خانہ خراب ہے
٭٭٭