غزل
غلط ہے آسی یہ بد گمانی وہاں کسی کا گزر نہیں ہے
کہ آج تک تیری حالتوں کی کہیں کسی کو خبرنہیں ہے
وہ حال اس طرح پوچھتے ہیں کہ ان کو گویا خبر نہیں ہے
تجاہل ایسا ہے دردِ دل سے کہ دل میں جس طرح گھر نہیں ہے
وہ کیوں سہیں حسن کا تقاضا یہی نہ ہے کچھ حجاب میرا
نقاب الٹیں وہ بے تکلف کہ مجھ کو تابِ نظر نہیں ہے
وصال و فرقت کے تند شکوے تو کیوں ہو دیدار کی تمنا
جو غیر اس کے کسی کو دیکھے کبھی وہ صاحب نظر نہیں ہے
ہم اور ضبط اب کہاں وہ طاقت چھپائیں اب کس میں سر الفت
تمہارے تیروں نے چھید ڈالے وہ دل نہیں وہ جگر نہیں ہے
کہو نہ کہتے تھے ہم یہ تم سے کہ حسن و عشق آخر ایک ہوں گے
دئیے ہیں وہ بارِ غم نہ جھونکے کہ اب یہاں بھی کمر نہیں ہے
بسانِ عمر رواں کسی کو سفر نہ پیش آئے بے کسی کا
کہ راہِ میں نقشِ پا نہیں میلِ رہ نہیں راہبر نہیں ہے
کہاں وہ آئے کدھر وہ آئے کہاں وہ ٹھہرے کدھر سدھارے
انہیں میں ہم محو تھے کچھ ایسے کہ ہم کو ان کی خبر نہیں ہے
نہ کیوں ہو دل کو یقین پیدا شہادت اس کی ہے غیب اس کا
نقاب منہ پر نہیں ہے لیکن کسی کوتابِ نظر نہیں ہے
رقیب جب تک کہ اٹھ نہ جائے ہمیں تو پاس اپنے کیوں بلائے
سوا ترے کچھ نظر نہ آئے ہماری ایسی نظر نہیں ہے
جو اپنے دم سے بھی آدمی کو نصیب ہوا اتحادِ کامل
کسے نہیں خلوت انجمن میں کسے وطن میں سفر نہیں ہے
عدو نہ مجھ سے لپٹنے آئے کہ اپنی ہستی کو روکے جائے
مجال ہے ہاتھ وہ لگائے یہ میں ہوں تیری کمر نہیں ہے
خفا نہ ہو بات مانو میری نہ راہِ لو غیر کی گلی کی
یہ سچ ہے بے خود پڑا ہے آسی مگر کبھی بے خبر نہیں ہے
٭٭٭