غزل
زخم دل ہم کو دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے
ہاں وہ صورت دکھا نہیں سکتے
کیا صدا بھی سنا نہیں سکتے
وہ یہاں تک جو آنہیں سکتے
کیا مجھے بھی بُلا نہیں سکتے
وعدہ بھی ہے تو ہے قیامت کا
جس کو ہم آزمانہیں سکتے
لذت اک گونہ چاہئے مجھ کو
کیا وہ دل بھی دکھانہیں سکتے
دل بھی نکلا حریف عنقا کا
اب کہیں تجھ کو پا نہیں سکتے
اب سے پھر جائو حضرتِ موسیٰ
تابِ دیدار لا نہیں سکتے
آپ بھی بحراشک ہیں گویا
آگ دل کی بجھا نہیں سکتے
اُن سے امیدِ وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے
مدد اے نالہ ہائے بے تابی
سوتے ہیں وہ جگا نہیں سکتے
اُن کو گھونگھٹ اٹھانے میں کیا عذر
ہوش میں ہم جو آنہیں سکتے
عشق کیسا تواں فزا نکلا
کس کے طعنے اٹھا نہیں سکتے
کس کے دل تک پہنچتی ہے یہ بات
دل دشمن دکھا نہیں سکتے
مانگتے موت کی دعاء لیکن
ہاتھ دل سے اٹھا نہیں سکتے
اُن کو دعوائے یوسفی آسیؔ
خواب میں بھی جو آنہیں سکتے
٭٭٭