غزل
قطرہ وہی کہ روکشِ دریا کہیں جسے
یعنی وہ میں ہی کیوں نہ ہوں تجھ سا کہیں جسے
وہ اک نگاہ اے دل مشتاق اس طرف
آشوب گاہِ حشر تمنا کہیں جسے
بیمارِ غم کی چارہ گری کچھ ضرور ہے
وہ درد دل میں دے کہ مسیحا کہیں جسے
اے حسن جلوۂ رخ جاناں کبھی کبھی
تسکین چشم شوق نظارا کہیں جسے
اس ضعف میں تحمل صورت و صدا کہاں
ہاں بات وہ کہوں کہ نہ کہنا کہیں جسے
یہ بخشش اپنے بندہ ناچیز کے لئے
تھوڑی سی پونجی ایسی کہ دنیا کہیں جسے
وہ ایک ذرہ خاک قدم بہرِ چشم شوق
موسیٰ نگاہ مہر تجلیٰ کہیں جسے
ہم بزم ہو رقیب تو کیوں کر نہ چھیڑئیے
آہنگ سازِ درد کہ نالا کہیں جسے
پیمانہ نگاہ سے آخر چھلک گیا
سر جوش ذوق وصل تمنا کہیں جسے
آسیؔ جوگل سے گال کسی کے ہوئے توکیا
معشوق وہ کہ سب سے نرالا کہیں جسے
٭٭٭