غزل
عاشق کی جاں کنی پر تنہا نہ یار رویا
جس سنگ دل نے دیکھا بے اختیار رویا
ہمدرد کی مصیبت دیتی ہے کیا اذیّت
بلبل نے نالے کھینچے میں زار زار رویا
رقت سے دقتِ رخصت تھا دیکھنا بھی مشکل
جب آنکھ اُدھر اٹھائی بے اختیار رویا
اُن کی گلی میں جا کر سوت آنسوئوں کے پھوٹے
یہ پھوٹ پھوٹ کر میں زیرِ مزار رویا
برباد کر دیا جب قسمت نے گلستاں سے
ابرِ بہار بن کر میرا غبار رویا
ثابت جو ہو رہی تھی گلشن کی بے ثباتی
جوں جوں ہنسے گلِ تر میں زار زار رویا
اظہارِ سوزِ دل کو آسیؔ نے شمع آسا
جوں ہی زبان کھولی بے اختیار رویا
٭٭٭