donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* حال جو کچھ ہے ہجومِ موج ِ پیچ وتاب م *

حال جو کچھ ہے ہجومِ موج ِ پیچ وتاب میں
ماہیِ بے آب نے دیکھا نہ ہوگا خواب میں
کچھ نہ تھا غم شک طوفاں خیز کے سیلاب میں
خوفِ جاں ہے عشقِ نافِ غیرت مہتاب میں
جا پڑی ہے کشتی ٔعمر ِرواں گرداب میں
وہ بھی تو احباب ہی تھے جو لحد میں دھرگئے
تم عبث احوال اپنا آکے برہم کرگئے
کیا ہوا جی سے اگر ہم عاشقِ مضطر گئے
جی گئے جو دل کی بے تابی سے غم میں مرگئے
ہے عیاں رنگِ مسیحا کشتہ ٔ سیماب میں
مثل ِ گل دستِ طلب زرسے ہوا کب آشنا
کب دُرِ مقصود مٹھی میں صدف آساملا
ہم تہی دستانِ قسمت پر عبث ہے افترا
تارہائے چاکِ دامان وگریباں کے سوا
اور ہاتھ آیا ہمیں کیا عالمِ اسباب میں
ہجرِ سنگیں دل کی ہے مشقِ ستم آٹھوں پہر
ناک میں رہتاہے بے تابی سے دم آٹھوں پہر
وقفِ حیرت کیوں نہ ہوں اے فرطِ غم آٹھوں پہر
بے قراری میں پڑے رہتے ہیں ہم آٹھوں پہر
رات کی بے تابیوں سے پرلگے سُرخاب میں
کیوں نہ تڑپیں ہم سرِ خاکِ الم آٹھوں پہر
جب خوشی دم بھرنہ ہو اندوہ وغم آٹھوں پہر
ایک ساں ہے صدمۂ ہجرِ صنم آٹھوں پہر
بے قراری میں پڑے رہتے ہیں ہم آٹھوں پہر
رات کی بے تابیوں سے پر لگے سُرخاب میں
وقت آخر جذبِ دل تاثیر دکھلائے کہیں
گو خزاں ہو پر نہالِ عشق پھل لائے کہیں
نزع کا وقت آ گیا ایسے میں وہ آئے کہیں
حسرتِ دیدار ہے وہ بھی نکل جائے کہیں
ورنہ کچھ باقی نہیں اب عاشق بے تاب میں
بے ترے پاتا ہوں اسباب طرب جب روبرو
آنکھوں کے پیمانہ میں بھر بھر کے پیتا ہوں لہو
میں تو میں اب جانبِ چرخِ کہن کر دھیان تو
ہرشبِ مہ ہجر میں اے ساقی خورشید رو
چشم گریاں کا ہے عالم ساغر مہتاب میں
ایک وہ ہیں جن کو دردِ ہجر کی ہیں شد تیں
ایک وہ ہیں جن کو خوابِ وصل کی ہیں راحتیں
اپنے اپنے بخت ہیں اور اپنی اپنی قسمتیں
بسمل تیغ جدائی کی نہ پوچھو حسر تیں
دیکھ کرلپٹے ہوئے معشوق وعاشق ڈاب میں
ہو کے برہم کچھ نرالی وضع زلفوں کی ہوئی
فوجِ مارانِ سیہ جس طرح ہوا مڈی ہوئی
ہر ادائے تازہ میں اک تازہ نیرنگی ہوئی
چشم مے گوں پر وہ زلف آئی تویہ پھبتی ہوئی
ناگنی منہ ڈالے بیٹھی ہے شراب ناب میں
حاجتِ دل صاف میرے چہرہ سے ہے آشکار
ایک رنگ آتا ہے اک جاتا ہے دم میں لاکھ بار
چین لینے دیتی ہے بے تابیِ جانِ نزار؟
نالہ بھی جو سر کیا میں نے وہ نکلابے قرار
معدنِ سیماب ہے گویا دلِ بے تاب میں
دوستوں کی گل فشانی یاد کر کے روتے ہیں
ان کی وہ رنگیں بیانی یاد کر کے روتے ہیں
غنچہ ٔ یارانِ جانی یاد کرکے روتے ہیں
صحبتِ عہدِ جوانی یاد کرکے روتے ہیں
کوئی بھی یاقی نہیں اُس وقت کے احباب میں
کچھ نہ پوچھو کس طرح رور وکے ہم جی کھوتے ہیں
کیسے کسیے اپنے جاں پر درلحد میں سوتے ہیں
اس بڑھاپے میں انہیں باتوں کے صدمے ہوتے ہیں
صحبتِ عہدِ جوانی یاد کر کے روتے ہیں
کوئی بھی باقی نہیں اس وقت کے احباب میں
اور اس سے بھی سوایہ عیش گھر آباد ہو
آئے جو ناشاد اس دروازے پروہ شادہو
مجھ سے محزوں پر مگر درباں کی کیوں بے داد ہو
حاضرِ در میں رہوں یا جائوں جو ارشاد ہو
آپ کیا کہتے ہیں اے جانِ جہاں اس باب میں
حبُِ قربیٰ جب پیمبر کو ہوئی ہم سے مراد
کیوں غمِ شبیر وشبر پر کرے کوئی عناد
آسیؔ مغموم کوہے یاد قولِ اوستاد
خستگی سبطین کی اے افضل آتی ہے جو یاد
روتے ہیں ذکرِ حدیث ِ سیدِا شباب میں
٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 465