donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* قصیدہ در مدح نواب کلب علی خاں *

قصیدہ

در مدح نواب کلب علی خاں بہادر والی رام پور

کہاں تیرا کوئی بحر ِ وجود میں ثانی

حباب دیدہ اہل نظر میں ہے پانی

نہ فرق سوجے اگر ظاہر و مظاہر میں

کسے کہے کوئی باقی کسے کہے فانی

اسی کو دیکھتے ہیں جمع بلکہ جمع الجمع

جسے سمجھتے رہے مدتوں پریشانی

ہوا جو رفع تعین تو جز بہار نہ تھا

یہ برگ و بار و گل و غنچہ گلستانی

کہے بہار لب گل سے ’’ میں بہار‘‘ تو کیا

یہ شور کشتن منصور وائے نادانی

درخت پھل سے ہے پیدا تو ہے درخت میں پھل

یہ میری تیری ہے پیدائی اور پنہانی

اگر یہ ہم ہیں تو کیا تیری ذات ہے محدود

اگر یہ تو ہے تو کیا پھر وجودِ امکانی

اگر یہی ہے تو وہ شوقِ دید کس کا تھا

جوابِ تند سے کی کس نے شعلہ افشانی

مخل نہ جب ہوئی وحدت میں کثرت عالم

تو کیوں شریک قدم ہو ثبوت اعیانی

زوالِ صورت اشیاء ہے صورت ہمہ اوست

غرض کہ ہیچ مدانی ہوئی ہمہ دانی

مآل سعی نگاہ کمال تحقیقات

نہ خاک کچھ نظر آیا بغیر حیرانی

اخیر یہ کہ نہ پہچاننے کے قالب میں

وہ ذات پاک گئی آشنا سے پہچانی

مجھے امید سکون و قرار کیا اُس سے

جو اپنے جلووں کو رکھتا ہوں آنی و فانی

ابھی تو وجد میں لاتا ہوں عقل اول کو

وہ چھیڑتا ہوں میں آہنگِ مطلع ثانی

ہے طراوش جوش شیوان احسانی

ظہور خاص کو خو ش آئی وضع انسانی

حباب گنبد گردوں میں یہ اشارہ ہے

ہوا کی طرح ہے آنا تیرا یہاں آنی

جو ایک ذکر میں سو گردشیں نہ دے دل کو

وہ کیوں عبث کرے بد نام سبحہ گردانی

بڑھا جو شعلہ میرا جسم زار سے لپٹا

فدائے شمع تجلی ہوئی وہ عریانی

خدا بخشی ہے صحبت کو بڑی تاثیر

سروہی آنکھوں میں ہے سرمہ صفا بانی

شگافِ سینہ سے جھانکو تو بھوکِ پیاس ہو بند

ہر ایک داغِ غم دل ہے ماہِ کنعانی

جو خاکسار ہو اپنی جگہ سے کیوں اُٹھے

کہ اُٹھ کے مثل غبار اس کو ہو پریشانی

برنگ لالہ کہاں خونچکاں زبان ملے

جو کوئی عرض کرے سوز داغ پنہانی

میں ابتدا ہی میں ان نالوں کو یہ کہتا تھا

مگر حباب بھی تھا کوئی تاجِ سلطانی

بس ایک دم کے لئے سر بلند دیکھ لیا

مگر حباب بھی تھا کوئی تاجِ سلطانی

نہ چھوڑے گا روِ راستی کو آزادہ

کہ میلِ راہِ ہدایت ہے سرو بستانی

ضرور روئے بتاں میں کچھ اور جلوہ تھا

ہے چشم آئینہ آئینہ دارِ حیرانی

خدا کے واسطے اے شمع اب بھی کہنا مان

کرے گی بھور تیرا تیری اشک افشانی

وہ طوطی شکر ستان ہند ہوں آسی

کہ گم ہونا طقہ صائب صفا ہانی

میرا کلام وہ معجز جو پڑھ کے ایک مصرع

دہانِ گنگ میں پھونکوں کرے غزل خوانی

نہ جان دے کے بھی ہم سمجھے وائے نادانی

کہ تھا وہی لبِ جاں بخش دشمنِ جانی

بچی بھی تھی کہیں بختِ سیاہ عاشق سے

غلط ہے گیسوئے شب رنگ کی پریشانی

میں نقشِ پا کی طرح پائمال و خاک بسر

وہاں ہنوز وہی تہمت تن آسانی

خیالِ غیر ادھر آیا کہ مار دی گولی

غضب کی مردم دیدہ نے کی نگہبانی

بغیر منزلِ حیرت کہاں نظارہ یار

نویدِ یاس ہوئی آئینہ کی حیرانی

ہمارے زخم جگر اور اس طرح مرجھائیں

وہ کیا ہوئی تری زلفوں کی مشک افشانی

نہ داغ سینے میں پیدانہ دل میں دھیان ترا

توکس نے چاکِ گریباں کیا ہے نورانی

بھلاتم اپنی انگوٹھی توہاتھ میں ڈھونڈو

عدو سے دیو کریں دعویٔ سلیمانی

تمہیں نہ دل میں چلے آئودیکھ لوسب حال

نہیں ہے قابلِ اظہار دردِ پنہانی

وہ اپنی زلفیں کہاں تک بنائیں گے آخر

ہماری رات ہے زلفوں سے ان کی طولانی

نہ چھوڑبہرِخدااے خیالِ موئے کمر

ہمارے دیدۂ داغِ جگرکی مثرگانی

ترے تصورِ روئے نکونے کھول دیا

کہ دل کے شیشہ میں تھی قوتِ پرستانی

کسی کے سُرمۂ دنبالہ دارنے آسیؔ

سیاہ مست کودی مے کدے کی دربانی

پڑھوں صدائے حزیں سے وہ خونفشاں مطلع

کہ بزمِ عرضِ سخن ہو تمام افشانی

دلِ گرفتہ ہے اے دل نوید ِعریانی

کہ غیر چاک نہیں غنچے کی گریبانی

سیاہی شب ِغم کانہ کیوں ہوں شکرگزار

شبِ لحد نظر آتی ہے مجھ کو نورانی

میں اس کی رزق رسانی کی شان کے صدقے

نہ اور کچھ ہوتو غم ہے غذائے روحانی

نہ خاک کچھ ہوئی تاثیرسخت جانی میں

بھلا جگر کو کیا زہرغم نے کیا پانی

یہ سادگی کہ میں اس بحرِغم کو ڈھونڈوں تھا

ہو جس کے قطرے میں کشتیِ نوح طوفانی

بجائے آب ہے زہرابہ ٔ الم دن رات

غذا کے بدلے وہی دل جگر کی بریانی

ظہورِ غم توکچھ اسباب کا نہیں محتاج

بغیر چشم ہے شبنم کی اشک افشانی

جو آفتابِ قیامت نہیں تو کیا ہیں یہ داغ

کہ ان کے دم سے شبِ غم کی ہے چراغانی

دفورِ اشک میں مادائے غم نہ دل ہوتا

جو ہوتی لازمِ سیلاب خانہ ویرانی

یہ زیرِ چرخِ تنک ظرف جوششِ یم غم

یہ اک حباب میںبحرِ بلاکہ طغیانی

کہاں فلک نے بھرے سیم وزر سے ہاتھ اپنے

ہماری قدرمہ ومہرسے بھی کم جانی

مرا نوشتہ ٔ تقدیر وہ سیہ نامہ

کہ بہرِ خواب کرے بخت کی شبستانی

جزاغنیانہ ہومفلس کے درد کا گاہک

گراں بہا ہے غمِ جاں گزاکی ارزانی

ہوائے صدقِ ابوبکرؓ وسوزِ عشق عمرؓ

خمیر کیلئے آبِ حیائے عثمانی ؓ

جہانِ ولولۂ بوتراب کی خاک

نہ پوچھ کس کے عناصر ہیں ایسے نورانی

وہ کون پاک گہر پاک منظر ایسا ہے

خجستہ روئے ملک خوئے یوسفِ ثانی

سپہرِ کوکبہ نواب ِآفتاب جناب

جنابِ کلبِ علی خاں محب ِسبحانی

اگرچہ جذب دل ِزار کھینچتا ہے اُدھر

پکڑ کے دستِ ارادت سے موئے پیشانی

میں خاکِ جادۂ ایماں وہ قبلہ ایماں

رجوع اس کی طرف عین حُبّ ِ ایمانی

مگر خدا نے کیاہے مجھے وہ خاک نشیں

اُٹھا جگہ سے کہ ہوں مثلِ نقشِ پافانی

برائے سیر، رہِ بروبحرظاہرہے

میں بحر شعر میں کرتا ہوں سیر ِپنہانی

نگاہ ِاہل ِحقیقت میں قریب جسمی سے

اتم واکمل واشرف ہے وصلِ روحانی

حضور میں یہ زمیں بوس ہوکے عرض کروں

کہ اے فدائے جمالِ توانسی وجانی

راجمال جمالِ کمالِ نفسانی

تراخیال کمالِ خیالِ انسانی

ترافراق فراقِ سعادتِ ابدی

تراوصال وصولِ عروجِ امکانی

تراکرم کرمِ حق کی دل رُباتصویر

ترا غضب غضبِ کردگار کا بانی

ترا کمال مہِ آسمانِ جلوۂ ذات

ترا کلام جہانِ رموزِ عرفانی

تری ثنا ہوئی سرمایہ کمالِ ثنا

ثنا پر آپ ہے واجب تری ثنا خوانی

تری یہ محویت اللہ ذکرِ سبحاں میں

کہ تیرے سجے سے نکلے صدائے سبحانی

دلائے حق تری رگ رگ میں ریشہ ریشہ میں

فلاسفہ جسے سمجھیں حلولِ سریانی

خدا کی رحمتِ پیہم تری محیطِ وجود

یہ پائی میںنے مثالِ حلولِ طریانی

دلیلِ شوکت ایماں ترے زمانے میں

برنگِ زُلفِ بُتاں کفرکی پریشانی

برائے نصرت ِسالک صدائے امرتری

فغانِ زنگلہ ٔ کاروانِ حق دانی

گناہ گاروں میں شور نہیبِ نہی ترا

نمک فشانیِ جام شراب ِریحانی

تراوہ عدل کہ نوشیرواں پئے تقلید

ازل ہی میں تجھے سمجھا امامِ روحانی

ترا فدائے سرِبذل گوہر شہوار

تراگدائے درِفیض ابرِنیسانی

خدا کرے کہ ترے دستِ جودسے ہوخجل

ہمارے پنجہ ٔ مثرگاں کی گوہرافشانی

وہ تیری ہی نہ گہرریزیوں کے جلوے ہوں

بھری جو دیکھی ثریا کی رات ہمیانی

وسیع سینہ ٔ عارف سے صحنِ خانہ ترا

بلند ہمت ِعاشق سے اوجِ ایوانی

وہ تیری خلوتِ راحت میں ہردرد دیوار

کہ جوشِ بالِ پری ہوپئے مگس رانی

تراوہ جلوۂ حسنِ خرام جاں بخشا

کہ جائے ذرہ کرے گردِرہ دل افشانی

تراوہ شعشۂ تیغ برقِ کافرسوز

کہ خاکِ گبرسے ہو جلوۂ مسلمانی

خیالِ بُرشِ شمشیر ہے یہ حیرت زا

کہ داغ داغ جگر کا ہے چشمِ قربانی

دمِ مصاف جودشمن سے چارہوں آنکھیں

اجل کرے ترے تیرِنگہ کی پیکانی

جواصد قاکی طرف رُخ کرے نسیم کرم

کرے فضائے ارادت بہار سامانی

اگرچہ گزرے جہانگیر اور عالمگیر

مگر کہاں یہ تراعالمِ جہاں بانی

نہ پوچھ لشکرِ انجم میں کیا پڑی ہلچل

جوصبح دیکھی تری فوج کی فرادانی

ہوائے دامنِ زینِ سمندودستِ ہوس

ہوا کومٹھی میںلینے کی فکر نادانی

ہوانہ برق نہ آندھی یہ سب مثال غلط

مری نظر میں توگھوڑا ہے تیرا لاثانی

قلم کوہاتھ لگاکرکہایہ مانی نے

کہ کھینچوں صورتِ حسنِ ادائے جولانی

وہ بروبحرو جبل چرخ وعرش روند آیا

قلم اٹھانہ چکا تھا ابھی یہاں مانی

جو تو سوار ہو فیل ِسیاہ پراپنے

کہوں میں کعبہ کی چھت پرہے نوریزدانی

اگریہ کہئے کہ بے پردہ تھی تجلیِ طور

ہوا وہ جل کے کفِ سُرمۂ صفاہانی

سیاہ فام ترافیلِ کوہ پیکر کیوں

یہاں تو تھاترے پردے میں نورِرحمانی

عجب نہ کر جوہوا طورجل کے خاک سیاہ

غضب تھی برق تجلی کی آتش افشانی

سیاہ فام ہے فیلِ گراں جسدبھی ترا

ضرور تجھ میں ہے لمعانِ نورِ رحمانی

دمِ نظارہ ترا جلوہ دیکھ کراس پر

گروں جوغش میں کہیں میں ہوں موسیِثانی

توہے وہ رشکِ مسیحاکہ اس زمانے میں

جلا دیئے ہیں عظامِ رمیم سبحانی

وگرنہ اب وہ زمانہ قریب آیا تھا

کہ کرتے اہلِ سخن ماتمِ سخن دانی

تری زمینِ غزل میں جوذرہ فرض کروں

ہے آفتابِ حقیقت کی اس میں رخشانی

گلِ سخن کے تبسم سے بات کی تونے

بہارِ خندہ صبحِ وصالِ جانانی

اسے ہے نسبت شاگردی اور تو خاقان

یہ اہل ِ حق کوہے تحقیق نام خاقانی

ترے تلامذہ اسے سعدِ اکبرِاقبال

مری نظر میں ہیں ایک ایک سعدیٔ ثانی

تمام اہلِ جہاں جسم ،اور جان ہے تو

جو تجھ کو جانے کرے دعوی خدا دانی

ہمارے شعرتری مدح میں ہیں دُرِ یتیم

کسی کی مدح نہ کی ہم نے جز غزل خوانی

تو ان پر آج توجہ سے دستِ شفقت پھیر

نہ کر یتیم سے صرفِ نگاہِ احسانی

بتا تو کیسی جگر کا دیاں ہوئی ہوں گی

جو زیبِ گوش ہوئے یہ جواہرِ خانی

نہ جان شعر یہ میرے جگر کے ٹکڑے ہیں

نثار فرقِ مبارک کو ہیں جوار زانی

بجا ہے تجھ سے حقیقت شناس سے مجھ کو

امید ِقدر شناسی ومنزلت دانی

بس اب دعا کیلئے ہاتھ اٹھائو اے آسیؔ

ہے اہتزاز میں اس وقت عرش ِربانی

توحکمراں رہے لاکھوں برس مگر وہ برس

کہ جس کے دن ہوں قیامت کے دن سے طولانی

شفق میں آگ ہو جب تک خطِ صنم میں غبار

ہوا دلوں میں، حیا کی نگاہ میں پانی

رہیں عناصرِ پر نور اعتدال کے ساتھ

بجاوہ حشمت وفیروزی وجہاں بانی

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 452