قطعہ ٔ تاریخ وفات شاہ فریدعالم صاحب
واہل خانہ جناب موصوف غراللہ لہام
تھی مہ شوال کی پچیسویں
اور دن شاید رہا ہو پیر کا
وہ فریدِعالمِ عزووقار
جن سے غازی پور کو عزوعلا
کہتے ہیں قبل از غروب آفتاب
آفتابِ عمران کا ڈھل گیا
شام سے کچھ پہلے آئی شام ِ غم
ظلمتوں نے کیا ہجوم اس دن کیا
چھا گئی نظروں میں کیسی تیرگی
کچھ جو آنکھوں کو رہا ہوسو جھتا
ہوگیا بے باپ کاہے ہے وحیدؔ
ہائے اس کا خاکِ غم پر لوٹنا
اوراس پرسنئے ایک تازہ ستم
کیا قیامت پر قیامت ہے بپا
خاک بھی سرسے نہ جھاڑی تھی ابھی
آسمانِ غم جو ٹوٹا دوسرا
آٹھ دن کے بعد ناگہ اے غضب
سائیہ مادر بھی سرسے اٹھ گیا
دھیان کرتاہوں جو اس کی بے کسی
دل نہیں رہتا ہے قابو میں مرا
کیا کیا افسوس تو نے اے فلک
کچھ بھی ہے تیرے ستم کی انتہا
پوچھے آسیؔ جو کوئی سالِ وصال
کہییٔ پیہم حادثے پر حادثہ
۱۲۹۶ھ
مصرعِ سال مسیحی ہائے ہائے
کرب وغم درد والم جوشِ بکا
۱۸۵۵ء
٭٭٭