غزل
سر کٹانے کے لئے دل وہیں بے تاب ہوا
مثلِ آبرو کوئی خنجر جو سیہ تاب ہوا
رتبہ پایا ہے محبت میں تو اب دل کو سنبھال
گر پڑے کا صفتِ برق جو بے تاب ہوا
خاکساری سببِ آبروئے سالک ہے
جو ملا خاک میں آنسو، دُر نایاب ہوا
قابلِ سجدہ ہوا جھک کے ملا جو کوئی
قدِ خم گشتہ میں پیدا خمِ محراب ہوا
ظرف اگر پائے تو نعمت سے کبھی سیر نہ ہو
پُر نہ دریا سے کبھی کاسۂ گرداب ہوا
جس نے دیکھا تجھے کے خاک لگے آنکھ اُس کی
دیدۂ رخنہ دیوار بھی بے خو اب ہوا
خوب یک رنگیِ الفت کے تماشے دیکھے
روز پروانۂ بے کس شبِ سرخاب ہوا
بس بھی کر اے مرے طوفانِ سر شک اب بس کر
روزنِ قصرِ صنم دیدۂ پر آب ہوا
اشکوں نے تابہ گلو آکے وہ چکر باندھا
حلقہ جیب مرا حلقہ گرداب ہوا
شعر وہ نور سے لبریز پڑھے آسی نے
حلقہ اہلِ سخن ہالۂ مہتاب ہوا
٭٭٭