قطعات صفحہ نمبر۷
پروانہ کھلا قبائے گل کا کچھ بھی
کیا غنچے کے دل میں ہے نہ سمجھا کچھ بھی
گلشن میں یہ کس کے رنگ ہیں اے نرگس
کس کام کی آنکھ جب نہ سوجھا کچھ بھی
٭٭٭
پیری میں غمِ شباب کیا کھا تاہے
نادان وہ لطف اب کہاں پاتا ہے
کیوں کرنہ بڑھاپے میں ہو چہرہ بے نور
جب صبح ہوئی چراغ بجھ جاتا ہے
٭٭٭
توقیر بغیرِ جستجو ملتی ہے
ذلت گردش میں چار سو ملتی ہے
موٹی سی یہ بات ہے کہ موتی کی طرح
کنج عزلت میں آبرو ملتی ہے
٭٭٭
اے راہ روو بتائو کیا ہوکے رہوں
گردِ سرِراہ ونقشِ پاہو کے رہوں
بچھڑوں کے ملانے سے سدا کام رہے
اس قافلہ میں بانگِ دارہو کے رہوں
٭٭٭
میلِ رہِ منزلِ فنا ہوکے رہوں
ہم نغمۂ نالہ ٔ درا ہو کے رہوں
پامال اگر ہوں صورتِ نقشِ قدم
اس راہ میں تب بھی رہنما ہوکے رہوں
٭٭٭
ہر طرح سُراغ مدعا ہو کے رہوں
نقشِ قدم وبانگ ِ درا ہو کے رہوں
گڑ جائوں زمین میں اگر اے آسیؔ
میلِ رہِ منزلِ فنا ہو کے رہوں
٭٭٭
کب تک کوئی اپنے دل کے غم کو روئے
کب تک کوئی یار کے ستم کو روئے
ہر دم یہ رلا رہی ہے الفت جس کی
اللہ کرے کہ اب وہ ہم کو روئے
٭٭٭
اے جوشِ جنوں کہیں نہ دم بھر ٹھہرے
صحرا میں کہیں نہ اس کے در پر ٹھہرے
پارے کی طرح ہے بے قراری اپنی
ٹھہرے بھی اگر کہیں تو مرکر ٹھہرے
٭٭٭
صورت تری بھاگئی کہ سیرت دل کو
بے وجہ نہیں تیری محبت دل کو
نسبت ترے ساتھ کچھ نہ کچھ اس کو ہے
چھاتی سے لگاتی ہے جو خلقت دل کو
***